پاناما لیکس کیس میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ اور قومی اسمبلی سے چھٹی کے بعد لاہور کے حلقہ این اے 120 میں خالی ہونے والی نشست پر 17 ستمبر کو ضمنی انتخابات ہونے جارہے ہیں۔

یہ میری زندگی کا پہلا موقع ہے کہ میں ووٹ ڈالوں گا۔ چنانچہ اپنے قارئین سے رہنمائی کا طلبگار ہوں۔ ایسا نہیں کہ میں اب 18 سال کا ہوا ہوں، مگر قصہ کچھ یوں ہے کہ جب سے میں 18 سال کا ہوا ہوں، تب سے پاکستان میں ہر دو یا تین سال بعد عام انتخابات منعقد ہونے کی روایت ختم ہوچکی ہے اور میرے بالغ ہونے کے بعد ہونے والے 2002 سمیت تمام انتخابات کے موقعوں پر برقی میڈیا کا ملازم ہونے کی وجہ سے میری تعینانی کراچی میں ہوتی تھی۔

اور چوں کہ میرا اپنا تعلق لاہور سے ہے، چنانچہ میں نے کبھی پرواہ ہی نہیں کی کہ میرا ووٹ کس حلقے میں رجسٹرڈ ہے۔ اب چوں کہ سابق وزیرِ اعظم (کرپٹ ہونے کی وجہ سے نا سہی) مگر واجب الوصول تنخواہ نہ وصول کرنے کے جرم میں ہی نااہل ہو چکے ہیں، تو اب میں پہلی بار ووٹ ڈالوں گا۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ میں ووٹ کس کو دوں، سابق نااہل وزیرِ اعظم کی اہلیہ کو یا پھر ڈاکٹر یاسمین راشد کو، زچگی کے شعبے میں جن کی ماہرانہ خدمات کے ذریعے میں اس دنیا میں آیا۔

ایک طرف تو میں پرجوش ہوں کہ میں زندگی میں پہلی بار ووٹ ڈالوں گا اور دوسری طرف اس شش و پنج میں مبتلا ہوں کہ ووٹ کس کو دوں؟

ویسے پاکستان میں کروڑوں ووٹرز کیا سوچ کر ووٹ ڈالتے ہیں؟ حلقے کی حالت دیکھ کر یا امیدوار کی شرافت دیکھ کر، سیاسی جماعت کے سربراہ کو دیکھ کر یا کسی بھی سیاسی جماعت کا طرزِ حکمرانی دیکھ کر، ملکی و غیر ملکی حالات دیکھ کر یا خطے میں موجود دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات دیکھ کر یا پھر خارجہ پالیسی دیکھ کر؟ ایک ووٹ اور اتنی ساری سوچیں۔

کسی زمانے میں نظریات کی پیروی میں ووٹ ڈالے جاتے تھے۔ پھر روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ آیا اور پھر احتساب کے نعرے لگائے گئے۔ پھر بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ملنے والی ہمدردی کی وجہ سے ووٹرز نے پیپلز پارٹی کو چُنا، جبکہ 2013 کے انتخابات میں نواز شریف نے لوڈ شیڈنگ اور دہشتگردی ختم کرنے کے نعروں پر ووٹ حاصل کیے اور حکومت بنائی۔ اس ضمنی انتخاب میں نواز لیگ سابق وزیرِ اعظم کے نااہل ہونے کے بعد مظلومیت بیچ رہی ہے۔

لوڈ شیڈنگ تو ختم ہوئی نہیں اور دہشتگردی ختم کرنے کا کریڈٹ پاک فوج لے لیتی ہے۔ تو پھر مسلم لیگ نواز کی حکومت نے ان پانچ سالوں میں ملک کو دیا کیا، چھنکنا؟ ویسے بھی شریف خاندان کی حرکات اور سابق وزیرِ اعظم کو نکالنے کی وجوہات جانتے ہوئے دل نہیں مانتا کہ نواز لیگ کو ووٹ دوں۔

17 ستمبر کو ہونے والے ضمنی الیکشن میں مقابلہ کلثوم نواز اور ڈاکٹر یاسمین راشد کا ہے جو کہ 2013 کے انتخابات میں نواز شریف سے تقریباً 40 ہزار ووٹوں کے فرق سے ہاری تھیں۔

ڈاکٹر یاسمین راشد لاہور میں ایک انتہائی پروفیشنل اور ملن سار ماہر زچگی کی حیثیت سے جانی جاتی ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ڈاکٹر یاسمین راشد تحریک انصاف کے ٹکٹ پر لڑ رہی ہیں۔ جس کی کارکردگی اور سیاسی حرکات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔

تحریک انصاف کی اس ضمنی الیکشن سے پہلے انتخابی مہم اور خیبر پختونخوا میں حکومت کو دیکھا جائے تو مایوسی ہوتی ہے۔ عمران خان کو چاہیے تھا کہ ان چار سالوں میں خیبر پختونخواہ کو ایک ماڈل صوبہ بنا دیتے اور اس عرصے میں اپنی جماعت کو منظم کرتے ہوئے قابل اور نوجوان لوگ سامنے لاتے۔ مگر اب جیسے جیسے الیکشن قریب آتے جا رہے ہیں تو تحریک انصاف میں پیپلز پارٹی کی کھرچن پہلے سے کہیں زیادہ شامل ہونے لگی ہے، جس کا ماضی اور حال سب پر عیاں ہے۔

اس کے علاوہ پیپلز پارٹی کی طرف سے انتخابی کسر نفسی سے کام لیتے ہوئے فیصل میر کو شکست ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت کے نام کرنے کیلئے کھڑا کیا گیا ہے۔

اصولی طور پر نواز لیگ اور تحریک انصاف کے بعد تیسرا آپشن پیپلز پارٹی ہونی چاہیئے، لیکن پیپلز پارٹی کے پچھلے پانچ سالہ دور کو یاد کر کے وہ لوڈ شیڈنگ یاد آجاتی ہے جب بجلی آنے کے انتظار میں گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا تھا اور حکومت عوام کو کرائے کے بجلی گھروں کا لولی پاپ پکڑا دیتی تھی۔

اس کے علاوہ پیپلز پارٹی کو ووٹ نا دینے کی وجہ پانچ سالہ دور میں گورننس اور کراچی کے حالات ہیں جن کے ٹھیک ہونے یا بہتر ہونے کا کریڈٹ نا چاہتے ہوئے بھی نواز لیگ کو دینا پڑے گا۔ اُس پانچ سالہ دور اور موجودہ چار سالوں میں سندھ کے حالات اور خاص کر حالیہ بارشوں میں کراچی کی ناگفتہ بہ حالت میڈیا پر دیکھ کر سمجھ داری یہی لگتی ہے کہ اس سے بہتر ہے کہ نواز لیگ کو ہی ووٹ دےدوں کہ کم از کم پنجاب کی صورتحال سندھ جتنی بدترین تو نہیں۔

مگر جیسے ہی ذہن میں یہ سوچ آتی ہے، تو خیال آتا ہے کہ وفاقی حکومت کا کام صرف ایک صوبے کے حالات درست کرنا تو نہیں ہوتا، تو پھر نواز لیگ نے پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبوں میں اکا دکا ماس ٹرانزٹ کے منصوبوں کے اعلان کے علاوہ عوام بھلائی کے لیے کیا کیا ہے؟

ایسی صورتحال میں میرا دماغ فیصلہ کرنے سے قاصر ہے, کیوں کہ بھلے شریف خاندان کرپٹ ہے اور محاذ آرائی کی سیاست کر رہا ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کا 'منی پی پی پی' میں تبدیل ہونا اور عمران خان کے یو ٹرن تحریک انصاف کو ووٹ دینے کی اجازت نہیں دیتے۔ رہ گئی پیپلز پارٹی، تو جس جماعت نے نہ صرف اپنی جماعت، بلکہ ملک کی نامور رہنما بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے کی پیروی تک نہیں کی، اس کو اپنا محفاظ مان کر ووٹ کیسے دوں؟

کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ چوں کہ کوئی بھی جماعت ووٹ دیے جانے کے قابل نہیں تو کیوں نہ خود آزاد امیدوار کھڑا ہو کر اپنے آپ کو ہی ووٹ دے ڈالوں۔ یہ کیسا خیال ہے؟

آپ کی رہنمائی کا متمنی۔

تبصرے (4) بند ہیں

Ahmer T. Qureshi Sep 12, 2017 10:17am
Same situation i had faced while Local Body Elections of 2013 in Karachi. There were 4 main candidate i.e. MQM, PTI, JI and PPP in my areas and i showed "Thenga" to all of them. I friendly advise you for the same. Regards.
SHARMINDA Sep 12, 2017 12:04pm
Media can play vital role in bringing awareness to people to elect MNAs on their party's nation-wide policies & performance, MPAs on provincial and local governments on local issues. From past both Noon and PPP have failed to prove nation-wide policies.
Haris Sep 12, 2017 04:11pm
Vote is a social responsibility. Not giving will gave edge to some incapable one, my view is to always cast vote whoever you believe. Media & Social Media to play an important role in spreading awareness so people can have more clarity who to choose.
Naveed nasim Sep 12, 2017 09:28pm
@Haris I fully endorse your point but sometimes its become difficult to choose/vote anyone. I believe our real dillemma is that we don't have enough choices to vote and that is the reason PPP or PMLN takes the charge everytime