لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کو منظرعام پر لانے کا حکم جاری کردیا۔

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے قیصر اقبال سمیت سانحہ ماڈل ٹاؤن کے دیگر متاثرین کی جانب سے دائر کردہ تحقیقاتی رپورٹ سامنے لانے کی درخواست پر سماعت کی۔

سماعت کے بعد عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے سیکریٹری داخلہ پنجاب کو حکم دیا کہ ماڈل ٹاؤن واقعے کے حوالے سے جسٹس باقر نجفی رپورٹ کو فوری طور پر جاری کیا جائے۔

16 صفحات پر مشتمل فیصلے میں عدالت عالیہ کا کہنا تھا کہ جاں بحق ہونے والوں کے ورثاء اور زخمیوں کا حق ہے کہ انھیں اصل ذمہ داروں کا ہتہ ہونا چاہیے۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ عوامی دستاویز ہے، جوڈیشل انکوائری عوام کے مفاد میں کی جاتی ہے اور اسے عوام کے سامنے ہونا چاہیے۔

یاد رہے کہ پاکستان عوامی تحریک کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے درخواست کی گذشتہ سماعت پر اپنے دلائل میں کہا تھا کہ یہ اہم نوعیت کا معاملہ ہے، لہذا اس کو منظرعام پر آنا چاہیے، اس رپورٹ کا تعلق براہ راست عوام سے ہے اور اس کے منظرعام پر آنے سے آئندہ اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لیے اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: سانحہ ماڈل ٹاون کی انکوائری رپورٹ منظر عام پر لانے کیلئے درخواست

ایڈووکیٹ بیرسٹر علی ظفر نے مزید کہا تھا کہ پنجاب ٹرانسپیرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت معلومات حاصل کرنا ہر شہری کا حق ہے، معلومات تک رسائی کا قانون پنجاب حکومت نے خود بنایا ہے، جبکہ مجوزہ قانون میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ عوام کو صرف وہ معلومات نہیں دی جا سکتیں جس سے ملکی مفاد کو خطرہ لاحق ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کیس میں نہ تو ملکی مفاد کو کوئی خطرہ ہے اور نہ ہی پاکستان کی سالمیت سے اس کا کوئی تعلق ہے لہذا عدالت سانحہ ماڈل ٹاؤن کے عدالتی ٹریبیونل کی رپورٹ متاثرین کو فراہم کرنے اور منظر عام پر لانے کے احکامات صادر کرے۔

دوسری جانب ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت میں موقف اختیار کیا تھا کہ پنجاب حکومت کے عدالتی ٹریبیونل کے نوٹیفکیشن میں کہیں نہیں لکھا کہ اس رپورٹ سے عوام کا کوئی تعلق ہے، سانحہ ماڈل ٹاؤن سے متعلق درخواستیں لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ کے روبرو زیر التوا ہیں لہذا اس کیس کو بھی دیگر کیسز کی طرح فل بنچ میں جانا چاہیے۔

ایڈووکیٹ جنرل کے مطابق اس کیس کا جوڈیشل رپورٹ سے کوئی تعلق نہیں، باقی تمام کیسز ہائی کورٹ کےفل بنچ نے سنے ہیں جن پر ابھی سماعت مکمل نہیں ہوئی۔

سرکاری وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ رپورٹ پنجاب حکومت کے خلاف ہے، حکومت متعدد بار کہہ چکی ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن رپورٹ عوام کے لیے نہیں۔

وکلاء کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے 19 ستمبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا، جو آج سنایا گیا۔

یاد رہے کہ گذشتہ ماہ سانحہ ماڈل ٹاون میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین اور زخمیوں کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ 2014 میں ہونے والے ماڈل ٹاؤن سانحے کی تحقیقات کے لیے قائم کمیشن نے انکوائری رپورٹ مکمل کرکے پنجاب حکومت کے حوالے کردی تھی، جسے منظرعام پر نہیں لایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: باقرنجفی کی رپورٹ منظرعام پر لانے،شہباز شریف سے استعفے کا مطالبہ

رواں سال اگست میں پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی اس رپورٹ کو منظرعام پر لانے کی 'درخواست' کرنے کے لیے مال روڈ پر دھرنے کا اعلان کیا تھا۔

واضح رہے کہ 17 جون 2014 کو لاہور کے علاقے ماڈل ٹاون میں تحریک منہاج القران کے مرکزی سیکریٹریٹ اور پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے سامنے قائم تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے آپریشن کیا گیا تھا، مگر پی اے ٹی کے کارکنوں کی مزاحمت اور پولیس آپریشن کے باعث 14 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ 90 کے قریب زخمی ہوئے تھے۔

رپورٹ کا اجراء انصاف کی جانب قدم: طاہر القادری

لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے باقر نجفی رپورٹ کو منظرعام پر لانے کے حکم کے بعد پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے پریس کانفرنس کے دوران جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی جرات کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی حکم نے انصاف کی جانب قدم بڑھایا ہے۔

طاہر القادری کا کہنا تھا کہ رپورٹ کا شائع ہونا انصاف کی فتح کی جانب پہلا قدم ہے، جس نے ماڈل ٹاؤن کے شہداء کے ورثاء کو انصاف فراہم کرنے کی امید دلائی ہے۔

سربراہ عوامی تحریک نے کہا کہ ہم نے سوا تین سال انتظار کیا لیکن ایک بھی شخص قانون کے شکنجے میں نہیں آیا، ہم نے ریلیاں نکالیں، احتجاج کیے اور انصاف کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا، لیکن ہم نے لوگوں کے ذہنوں میں عدلیہ کے خلاف کوئی بدگمانی پیدا نہیں کی۔

ڈاکٹر طاہر القادری نے دعویٰ کیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو عدالتی کمیشن نے ذمہ دار ٹھہرایا ہے، اگر کمیشن نے وزیراعلیٰ کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا تو رپورٹ 3 سال سے کیوں دبائی ہوئی ہے؟ اگر وزیراعلیٰ قاتل نہیں تو پھر قاتلوں کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے مطالبہ کیا کہ پنجاب کی بیوروکریسی عدالتی حکم کے فوری بعد رپورٹ شہدا کے ورثاء کے حوالے کرے۔

تبصرے (0) بند ہیں