یانگون: میانمار فوج نے کشیدگی کا شکار ریاست رکھائن میں اجتماعی قبر دریافت کرنے کا انکشاف کیا ہے جہاں بچوں اور خواتین سمیت 28 ہندو افراد کی لاشیں موجود تھیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق میانمار فوج کی جانب سے ان ہندو افراد کے قتل کی ذمہ داری مسلمان روہنگیا عسکریت پسندوں پر عائد کی جارہی ہے۔

تاہم علاقے میں فوج کے سخت کنٹرول کے باعث اس دعوے کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں کی جاسکی۔

واضح رہے کہ رکھائن کی بستیوں میں مسلمانوں کے ہمراہ ہزاروں کی تعداد میں رہائش پذیر ہندو افراد علاقہ چھوڑ کر جا چکے ہیں، جن کا الزام ہے کہ انہیں اُن افراد کی جانب سے نشانہ بنایا جارہا ہے جن کی کارروائیوں کی وجہ سے 25 اگست کے بعد رکھائن میں کشیدگی کا آغاز ہوا۔

میانمار کے آرمی چیف کی ویب سائٹ پر پوسٹ کے جانے والے بیان کے مطابق ’سیکیورٹی اراکین نے 28 ہندو افراد کی لاشیں برآمد کیں جنہیں رکھائن ریاست میں آراکان روہنگیا سیلویشن آرمی (اے آر ایس اے) کے بنگالی دہشت گردوں نے بےدردی سے قتل کیا تھا‘۔

خیال رہے کہ اے آر ایس اے وہ گروپ ہے جس کے پولیس پوسٹ پر مبینہ حملوں کے نتیجے میں حالیہ روہنگیا بحران کا آغاز ہوا۔

میانمار فوج کی جانب سے روہنگیا افراد کے خلاف شروع کی جانے والی کارروائیوں کے نتیجے میں ایک ماہ کے دوران 4 لاکھ 30 ہزار سے زائد روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش ہجرت کرچکے ہیں۔

مزید پڑھیں: میانمار سے 87ہزار روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش پہنچ گئے

کشیدگی کے دوران اس علاقے میں رہنے والے 30 ہزار کے قریب ہندو اور بدھ مت کے پیروکار بھی مختلف علاقوں میں منتقل ہوچکے ہیں۔

دونوں برادریوں کے افراد نے غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ انہیں روہنگیا عسکریت پسندوں کی جانب سے دہشت گردی کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔

دوسری جانب اجتماعی قبر کے حوالے سے مزید تفصیلات بیان کرتے ہوئے میانمار فوج کا کہنا تھا کہ یباکیا گاؤں کے باہری علاقے میں تیز بُو کے بعد سیکیورٹی افسران نے اجتماعی قبر کی نشاندہی کی جہاں دو قبروں میں سے 20 مردہ خواتین اور 8 مردوں کی لاشیں نکالی گئیں، ان لاشوں میں 10 سال سے کم عمر 6 لڑکوں کی لاشیں بھی موجود تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: میانمار:روہنگیا عسکریت پسندوں،فورسز میں جھڑپیں،92ہلاک

میانمار حکومت کی انفارمیشن کمیٹی کی جانب سے ان لاشوں کی غیرمصدقہ تصاویر بھی شائع کی گئیں۔

حکومتی ترجمان زو ہتے اور شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک سینئر پولیس افسر نے بھی ان لاشوں کے برآمد ہونے کی تصدیق کی۔

واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے اس علاقے میں رہائش پذیر ہندو افراد نے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ 25 اگست کو چھریوں اور ڈنڈوں سے لیس عسکریت پسند علاقے میں داخل ہوئے اور اپنے راستے میں آنے والے افراد کو قتل کرتے چلے گئے جبکہ کئی افراد کو وہ اپنے ساتھ جنگل کی جانب لے گئے۔

ان عسکریت پسندوں کی جانب سے ہندو خواتین کو اغواء کیے جانے کا شبہ بھی ظاہر کیاجارہا ہے۔

خیال رہے کہ اجتماعی قبر سے برآمد ہونے والی ہندو افراد کی لاشوں کی نشاندہی لسانی تضاد کے شکار میانمار میں کشیدگی کو مزید ہوا دینے کا سبب بنے گی۔


یہ خبر 25 ستمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں