میانمار فوج کی ’نسل کشی‘ مہم میں خواتین سے ریپ کا انکشاف

اپ ڈیٹ 25 ستمبر 2017
ان واقعات پر تاحال آنگ سان سوچی کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا—فوٹو: اے ایف پی
ان واقعات پر تاحال آنگ سان سوچی کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا—فوٹو: اے ایف پی

گذشتہ چند ہفتوں کے دوران میانمار سے جان بچا کر بنگلہ دیش پہنچنے والے 4 لاکھ 209 ہزار روہنگیا مسلمانوں کے علاج میں مصروف ڈاکٹرز کے مطابق ان افراد میں درجنوں خواتین ایسی ہیں جنہیں بدترین جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ ان خواتین کے علاج کے دوران گینگ ریپ سے لے کر تشدد کے مختلف طریقوں کی نشاندہی کی گئی ہے جبکہ روہنگیا خواتین اس کا الزام میانمار کی فوج پر عائد کرتی ہیں۔

واضح رہے کہ میانمار کے حکام کی جانب سے تشدد اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزامات کی مسلسل تردید کی جاتی رہی ہے اور اسے انہیں بدنام کرنے کا پروپیگنڈا قرار دیا جاتا رہا ہے تاکہ وہ رکھائن میں موجود عسکریت پسندوں کا صفایا نہ کرسکیں۔

اُدھر میانمار کی نوبیل انعام یافتہ رہنما آنگ سان سوچی کے ترجمان زو ہتے کا کہنا ہے کہ انتظامیہ اپنے خلاف عائد کیے جانے والے تمام الزامات کی تحقیقات کرے گی، ’ریپ کا نشانہ بننے والی خواتین ہمارے پاس آئیں، ہم انہیں مکمل سیکیورٹی فراہم کریں گے، تحقیقات کی جائیں گی اور پھر ایکشن لیا جائے گا‘۔

ان واقعات پر تاحال آنگ سان سوچی کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

مزید پڑھیں: میانمار،روہنگیا مسلمانوں پرتشدد بند کرے،سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ

واضح رہے کہ میانمار کی ریاست رکھائن میں روہنگیا عسکریت پسندوں کی جانب سے 25 اگست کو فوجی چیک پوسٹس پر کیے جانے والے حملوں کے بعد علاقے میں کشیدگی کی تازہ لہر کا آغاز ہوا تھا۔

4 لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان اس کشیدگی اور میانمار فوج کی کارروائیوں سے بھاگ کر بنگلہ دیش میں پناہ لے چکے ہیں جبکہ اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ اسے ’لسانی نسل کشی‘ قرار دے چکا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز نے بنگلہ دیش کے ضلع کوژ بازار میں کام کرنے والے 8 ہیلتھ ورکرز سے بات چیت کی، جن کا کہنا تھا کہ وہ گذشتہ ماہ کے دوران ریپ کا شکار ہونے والی 25 سے زائد خواتین کا علاج کرچکے ہیں۔

ان ڈاکٹرز کے مطابق وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش نہیں کریں گے کہ ان کے مریضوں کے ساتھ کیا ہوا، تاہم درجنوں خواتین کی بیان کردہ کہانیاں ان کے جسمانی زخموں کی تصدیق کرتی ہیں جبکہ خواتین اس کا ذمہ دار میانمار کی فوج کو ٹھہراتی ہیں۔

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے ڈاکٹرز یا امدادی ورکرز کی جانب سے یہ کہنا کہ خواتین کا ریپ مبینہ طور پر ریاست کی فوج نے کیا کوئی عام بات نہیں۔

تصاویر دیکھیں: میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کو درپیش مشکلات

اقوام متحدہ کے ادارے انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن میں معالجے کی ذمہ داریاں سرانجام دینے والی داکٹر نیرنتا کمار کے مطابق جو زخم انہوں نے دیکھا اس سے ایسا لگتا ہے کہ خواتین کو ’تشدد‘ کا نشانہ بنایا گیا۔

آئی او ایم کی ایک اور میڈیکل آفیسر ڈاکٹر تسنوبا نورین کے مطابق ’ہم نے خواتین کی جلد پر نشات دیکھے، جس سے انتہائی طاقتور اور غیرانسانی حملے کا گمان ہوتا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ایسے کیسز بھی دیکھے جن مین خواتین کے مخصوص اعضاء کو نقصان پہنچایا گیا تھا۔

اقوام متحدہ کی ایجنسی کی مدد سے چلنے والے بنگلہ دیش کے سرکاری کلینکس میں بھی ریپ کا نشانہ بننے والی 19 خواتین کا علاج کیا گیا۔

مین ہیلتھ کمپلیکس کی سربراہ ڈاکٹر مصباح الدین احمد کے مطابق ’صرف 14 ستمبر کو ہی 6 خواتین کلینک پر آئیں جن کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا اور ان خواتین کے مطابق ان کے ساتھ ایسا میانمار کی فوج نے کیا تھا‘۔

نام طاہر نہ کرنے کی شرط پر آئی او ایم ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ ان کے پاس ’ایک خاتون ایسی آئیں جن کا کم از کم 7 فوجیوں نے ریپ کیا تھا اور وہ شدید کمزور اور صدمے میں تھیں‘۔

ڈاکٹرز کے مطابق ان تمام خواتین کو ایچ آئی وی، ایڈز اور ہیپاٹائٹس سے بچاؤ کی ادویات دی جارہی ہیں۔


یہ رپورٹ 25 ستمبر 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں