لاہور: ترکی کے شہری اور پاک-ترک اسکول سسٹم کے سابق نائب صدر میسوت کاجماز اپنی اہلیہ اور بیٹیوں کے ہمراہ لاہور کے علاقے واپڈا ٹاؤن میں واقع اپنی رہائش گاہ سے مبینہ طور پر اغوا ہو گئے۔

میسوت کاجماز کے پڑوسی فاتح آوجی جو خود بھی ترک شہری ہیں، نے پولیس اسٹیشن میں پاک-ترک اسکول سسٹم کے سابق نائب صدر کے اغوا کے حوالے سے ایک رپورٹ درج کرائی۔

درخواست میں بتایا گیا کہ تقریباً 20 افراد جن میں خواتین بھی شامل تھیں، لاہور کے واپڈا ٹاؤن کے بلاک ای 2 کے مکان نمبر 461 پر تشریف لائے۔

مزید پڑھیں: ترکی کے نئے تعلیمی نصاب سے 'نظریہ ارتقاء' خارج

فاتح آوجی نے پولیس کو بتایا کہ اغوا کار سادہ لباس میں ملبوس تھے، جنہوں نے میسوت کاجماز اور ان کے بچوں کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگائیں اور ان کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ دیں۔

فاتح آوجی نے بتایا کہ انہوں نے مداخلت کرنے کی کوشش کی، جس پر انہیں بھی اغوا کاروں نے گاڑی میں بٹھا لیا لیکن کچھ دیر بعد ہی انہیں چھوڑ دیا گیا تاہم اب تک کاجماز اور ان کے اہلِ خانہ کا کوئی علم نہیں۔

درخواست گزار نے بتایا کہ انہیں بھی اغوا کیا گیا تھا تاہم اغوا کاروں نے انہیں چند گھنٹوں بعد رہا کردیا تھا۔

انہوں نے پولیس کو بتایا کہ میسوت کاجماز گذشتہ 5 برس سے پاکستان میں رہائش پذیر ہیں جبکہ گذشتہ برس نومبر میں حکومت کی جانب سے پاک-ترک اسکول سسٹم بند کرنے اور ترک اساتذہ کو ملک چھوڑنے کے حکم کے بعد سے وہ اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) کے سیاسی پناہ کے سرٹیفکیٹ پر پاکستان میں رہائش پذیر ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بنیادی سہولیات سے محروم سرکاری اسکول

پاکستان میں ترک سفارتکار صدیق بہادر گرگن کا کہنا ہے کہ پاک-ترک اسکولز کا تعلق فتح اللہ گولن سے ہے جو ایک ترک عالم ہیں اور اس وقت امریکا میں مقیم ہیں، جن پر گذشتہ برس ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔

ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) آپریشن لاہور حیدر اشرف کا کہنا ہے کہ پولیس اغوا ہونے والے اس خاندان کا سراغ لگانے کی کوشش کر رہی ہے۔

دوسری جانب ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی) نے ترک شہری کو فوری طور پر بازیاب کرانے کا مطالبہ کردیا۔

ایچ آر سی پی کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق پاک-ترک اسکول سسٹم کے نائب صدر پاکستان میں یو این ایچ سی آر کے سیاسی پناہ کے سرٹیفکیٹ پر رہ رہے ہیں جو انہیں ملک میں نومبر 2017 تک قیام کی اجازت دیتا ہے۔


یہ خبر 28 ستمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں