چین سے تعلق رکھنے والے سائنسدانوں نے وائی فائی سے بہت زیادہ تیز وائرلیس کمیونیکشن چینیل کی تشکیل کے حوالے اہم پیشرفت کی ہے۔

چینی سائنسدانوں نے وائی فائی کے متبادل کے طور پر لائٹ فیڈیلیٹی المعروف لائی فائی کے حوالے سے اہم پیشرفت کی ہے اور توقع ہے کہ یہ ٹیکنالوجی چھ برسوں میں عام لوگوں کو دستیاب ہوسکے گی۔

لائی فائی میں ایل ای ڈی بلب کی روشنی کو ڈیٹا ٹرانسفر کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس کی رفتار ریڈیو ویو سے کام کرنے والے وائی فائی کے مقابلے میں کئی گنا تیز ہوتی ہے۔

مزید پڑھیں : موجودہ وائی فائی سے سو گنا تیز الٹرا وائی فائی

اس وقت بیشتر تحقیقی ٹیمیں رئیر زمینی عناصر کو لائی فائی سے ڈیٹا ٹرانسمیٹ کرنے کے لیے استعمال کررہے ہیں مگر چینی سائنسدانوں نے اس کا متبادل ایف سی ڈی ایس، یا ایک فلورسینٹ کاربن نانو میٹریل تیار کیا ہے جو کہ اس ٹیکنالوجی کے لیے زیادہ محفوظ اور اس کی رفتار کو زیادہ بڑھا دیتا ہے۔

چائنیز اکیڈمی آف سائنسز کے محققین کے مطابق دنیا بھر میں بیشتر ماہرین بھی اس پر کام کررہے ہیں، مگر ہم پہلی ٹیم ہیں جنھوں نے سستے خام مال جیسے یوریا کو اس عمل میں کامیابی سے استعمال کیا۔

یہ بھی پڑھیں : 'اس ٹیکنالوجی سے 1 سیکنڈ میں 23 فلمیں ڈاﺅن لوڈ کریں'

انہوں نے بتایا کہ رئیر زمینی عناصر کی زندگی کی مدت لمبی ہوتی ہے جو کہ لائی فائی ٹرانسمیشن کی رفتار میں کمی کا باعث بنتی ہے، مگر ایف سی ڈیز سے تیز ترین ڈیٹا ٹرانسمیشن اسپیڈ کو برقرار رکھا جاسکتا ہے۔

یہ نیا میٹریل ایسی روشنی خارج کرتا ہے جو کہ انسانی آنکھ کو بھی نظر آتی ہے جو کہ اہم پیشرفت قرار دی جارہی ہے۔

چینی سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ یہ لائی فائی کے حوالے سے ایک اہم پیشرفت ہے جو کہ توقع ہے کہ چھ برس کے اندر مارکیٹ میں دستیاب ہوگی۔

2015 میں چینی حکومتی ٹیم نے ایک تجربے کے دوران ثابت کیا تھا کہ لائی فائی کی رفتار 50 گیگابائیٹ فی سیکنڈ ہوسکتی ہے جس کے ذریعے ایک فلم صرف 0.3 سیکنڈ میں ڈاﺅن لوڈ ہوسکتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں