اسلام آباد: نیب قانون کا ازسرنو جائزہ لینے کے لیے پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں ججوں اور جرنیلوں کو احتساب قانون کے دائرہ کار میں لانے پر حتمی فیصلہ نہ ہوسکا۔

احتساب کے نئے قانون کا اطلاق وفاق کی سطح پر ہوگا یا صوبوں میں کمیٹی اس حوالے سے بھی حتمی فیصلہ نہ کر سکی۔

اجلاس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ ’کمیٹی نے قومی احتساب کمیشن قوانین کے مسودہ پر کافی حد تک اتفاق کرلیا ہے،جبکہ آج مسودہ کمیٹی ارکان کے حوالے کر دیا ہے۔‘

قانون کے اطلاق سے متعلق اراکین میں اتفاق کے سے حوالے سے زاہد حامد کا کہنا تھا کہ جہاں صوبائی اور وفاقی قانون کا ٹکراؤ ہوتا ہے وہاں وفاق کا قانون قابل عمل ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھ اور خیبر پختونخوا حکومتوں سے مشاورت کے بعد احتساب کے نئے قانون کی کارروائی آگے بڑھائی جائے گی اور نئے قانون کے اطلاق پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے ارکان اپنی صوبائی حکومتوں سے مشاورت کرکے آگاہ کریں گے۔

وزیر قانون نے کہا کہ نئے احتساب قانون میں 15 سال پہلے سے احتساب کا عمل شروع کرنے کی تجویز دی گئی ہے، ججوں اور جرنیلوں کے احتساب سے متعلق تجویز پر ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہوسکا، یہ حساس معاملہ ہے جس پر ارکان پارٹی قیادت سے مشاورت کریں گے اور تمام سیاسی جماعتیں آئندہ اجلاس میں مشاورت کے بعد اپنی رائے دیں گی۔

انہوں نے کہا کہ نئے قانون میں جان بوجھ کر نادہندہ ظاہر کرنے سے متعلق مقدمات بینکنگ کورٹس کو بھجوانے پر بھی غور کر رہے ہیں۔

حکومت پر اعتماد متزلزل ہوگیا، شاہ محمود

پی ٹی آئی کے رہنما شاہد محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’الیکشن ایکٹ کی منظوری کے بعد حکومت پر اعتماد متزلزل ہوگیا ہے، پی ٹی آئی اپنی کمیٹی میں نیب قانون کا جائزہ لینے اور قانونی ماہرین سے رائے لینے کے بعد ہی پارلیمانی کمیٹی میں موقف دے گی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’نیب کا قانون انتہائی اہم ہے، ہماری خواہش تھی کہ الیکشن ایکٹ بھی اتفاق رائے سے بنے لیکن شق 203 کی وجہ سے اتفاق رائے کا عمل متاثر ہوا۔‘

تبصرے (0) بند ہیں