۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ وزیر داخلہ کے بیان پر بطور سپاہی اور پاکستانی مایوسی ہوئی، ملک کی ترقی کے لیے ہر قسم کا استحکام ضروری ہے جبکہ میں معیشت سے متعلق اپنے بیان پر قائم ہوں۔

راولپنڈی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر داخلہ احسن اقبال کی جانب سے ترجمان پاک فوج کے معیشت سے متعلق بیان پر سخت ردعمل کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ’وزیر داخلہ کے بیان پر بطور سپاہی اور پاکستانی مایوسی ہوئی، کہا گیا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے غیر ذمہ دارانہ بیان دیا، کہا گیا ایسا بیان دشمن دیتا ہے، اپنے بیان میں یہ نہیں کہا کہ معیشت غیر مستحکم ہے، معیشت بری نہیں تو اچھی بھی نہیں کا مطلب تھا کہ اس میں مزید بہتری کی ضرورت ہے، اگر سیکیورٹی اچھی نہیں ہوگی تو معیشت بھی اچھی نہیں ہوگی، کوئی بھی بات ذاتی حیثیت میں نہیں بلکہ ترجمان پاک فوج کے طور پر کرتا ہوں اور معیشت سے متعلق اپنے بیان پرقائم ہوں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’مضبوط ملک کے لیے تمام شہریوں کو ذمہ داری سے ٹیکس ادا کرنا چاہیے، ٹیکس کیلئے جاری کیے گئے نوٹسز پر صرف 39 فیصد ریکوری ہوئی جبکہ سرکاری ملازمین سے 60 فیصد ٹیکس کی وصولی ہوئی۔‘

یاد رہے کہ گزشتہ روز وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کا ترجمان پاک فوج کے معیشت سے متعلق بیان پر ردعمل میں کہنا تھا کہ ’پاکستان کی معیشت مستحکم ہے، غیر ذمہ دارانہ بیانات پاکستان کی عالمی ساکھ متاثر کر سکتے ہیں اور ڈی جی آئی ایس پی آر کو معیشت پر بیانات اور تبصروں سے گریز کرنا چاہیے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’2013 کے مقابلے میں ملکی معیشت بہت بہتر ہے، ملک کی تاریخ کے سب سے بڑے ترقیاتی بجٹ پر عمل ہو رہا ہے اور اب ہمیں آئی ایم ایف پروگرام پر جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘

وزیر داخلہ کی جانب سے یہ بیان میجر جنرل آصف غفور کے نجی ٹی وی کو اس انٹرویو کے ردعمل میں آیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’ملک کی معیشت اگر بری نہیں تو اچھی بھی نہیں ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ مل بیٹھ کر معیشت پر بات چیت کی جائے جبکہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس حوالے سے تجاویز بھی دی ہیں۔‘

ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق ملک کی سیکیورٹی اور معیشت کا گہرا تعلق ہے اور ملک کے حالات ٹھیک نہ ہونے پر معیشت متاثر ہوتی ہے جبکہ پاک فوج ملک کے سیکیورٹی معاملات کو دیکھ رہی ہے۔

’جمہوریت کو پاک فوج سے کوئی خطرہ نہیں‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ملک کی ترقی کے لیے ہر قسم کا استحکام ضروری ہے، معیشت بہتر ہوگی تو قومی سلامتی سے متعلق فیصلے بھی بہتر ہوں گے، پنجاب میں رینجرز کا آپریشن سول حکومت کی منظوری سے شروع ہوا، ریاستی ادارے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں اور پاک فوج ہر ادارے کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے۔‘

فوج اور حکومت کے درمیان تعلقات سے متعلق ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جہاں اداروں میں اختلاف رائے نہ ہوں، سویلین حکومت ہی آرمی چیف کا تقرر کرتی ہے اور تمام فیصلے حاکم وقت نے کرنے ہوتے ہیں، ملک کی ترقی کے لیے حکومت کا چلنا ضروری ہے، افواہیں گردش میں ہیں ٹیکنوکریٹ حکومت لانے کی بات چل رہی ہے، جمہوریت کوپاک فوج سے کوئی خطرہ نہیں اور جمہوریت کوا گر کوئی خطرہ ہوسکتا ہے تو وہ جمہوریت کے تقاضوں اور عوام کی امنگوں کو پورا نہ کرنے سے ہوسکتا ہے جبکہ پاک فوج آئین و قانون سے بالاتر کوئی کام نہیں کرے گی۔‘

’پاکستان میں اب کوئی نوگو ایریا نہیں‘

میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ’پاکستان نے گزشتہ 8 سال میں اپنی سیکیورٹی کے لیے خاطر خواہ اور موثر اقدامات اٹھائے جس کے باعث پاکستان میں اب کوئی نوگو ایریا نہیں، 15 سال میں پاکستان نے اپنی سیکیورٹی کے حوالے سے بہت سے نتائج حاصل کیے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’چند روز قبل ہم نے کرم ایجنسی میں ایک آپریشن کیا جس پر امریکا سے ہمیں انٹیلی جنس معلومات ملی، آپریشن میں بازیاب کرائے گئے کینیڈین خاندان کو اکتوبر 2012 میں افغانستان سے اغوا کیا گیا، امریکی سفیر نے عسکری حکام کو مغویوں سے متعلق اطلاع دی، آپریشن کے دوران اغوا کاروں کی گاڑیوں کے ٹائروں پر فائر کرکے انہیں روکا گیا، سیکیورٹی اہلکاروں نے دہشت گردوں کے گاڑیوں سے نکلنے کا انتظار کیا اور سیکورٹی فورسز نے غیر ملکی مغویوں کو بحفاظت بازیاب کرایا۔‘

’اب ڈومور کی گنجائش نہیں‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جس جگہ آپریشن کیا گیا اس کے قریب افغان مہاجرین کا کیمپ بھی تھا، افغان مہاجرین کا اپنے ملک واپس جانا ضروری ہے، ہم نے بہت کچھ کر لیا، آگے بھی ہمیں جو کچھ کرنا ہے اپنے ملک کے لیے کرنا ہے لیکن اب ڈومور کی گنجائش نہیں۔‘

میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ’ہم نے یرغمالیوں کو بحفاظت نکالا، ان کے والدین کا بیان موجود ہے، ہم اس کارروائی کو ایک اچھے آغاز کے طور پر دیکھ رہے ہیں، افغان جنگ میں پاکستان کا تعاون نہ ہوتا تو وہ کامیاب نہ ہوتی، پاکستان کی سرزمین پر مشترکہ آپریشن کا کوئی امکان نہیں جبکہ باہمی اتحاد اور تعاون سے ہی دہشت گردوں کے خلاف کامیابی ممکن ہے۔‘

تبصرے (1) بند ہیں

MuhammaD Oct 14, 2017 06:44pm
Everyone should work in assigned domain to avoid problems and unnecessary debates. From last few years smuggling is also becoming a major hurdle in economic prosperity. One Zarb-e-Smuggling is also required & Pak Fauj should think about this.