ایک خطرناک سفر اور ہیرو کی داستاں

19 اکتوبر 2017
پاکستانی ڈرائیور مہر محمد خلیل جنہوں نے دہشت گرد حملے میں جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سری لنکن ٹیم کی بس کو قذافی اسٹیڈیم تک پہنچایا تھا— فوٹو: اے ایف پی
پاکستانی ڈرائیور مہر محمد خلیل جنہوں نے دہشت گرد حملے میں جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سری لنکن ٹیم کی بس کو قذافی اسٹیڈیم تک پہنچایا تھا— فوٹو: اے ایف پی

2009 میں لاہور کی مصروف شاہراہ پر دہشت گردوں نے سری لنکن ٹیم کی بس پر حملہ کیا تو اس نازک مرحلے پر گولیوں کی بارش میں جان کی بازی لگا کر ڈرائیور مہر محمد خلیل نے اپنے حواس کو قابو میں رکھا اور ٹیم کو محفوظ مقام تک پہنچا کر ہیرو بن گئے۔

اس خوفناک دن کے آٹھ سال بعد اب وہ سری لنکن ٹیم کو دوبارہ خوش آمدید کہنے کیلئے تیار ہیں جہاں قومی ٹیم اس دوارنیے میں پہلی مرتبہ اپنے ہوم گراؤنڈ پر کسی صف اول کی ٹیم کی میزبانی کرے گی۔

ماضی کی نسبت اب سیکیورٹی کی صورتحال انتہائی بہتر ہو چکی ہے اور چند کھلاڑیوں کی جانب سے تحفظات کے باوجود سری لنکن بورڈ نے آئندہ ہفتے ٹی20 میچ کے لاہور میں انعقاد کیلئے ٹیم بھیجنے پر رضامندی طاہر کردی ہے۔

مہر خلیل نے کہا کہ سری لنکن ٹیم کی آمد کے اعلان کے ساتھ شروع ہونے والی گہما گہمی نے اس بھیانک حملے کی یادیں ازسرنو تازہ کردیں جب تین مارچ 2009 میں جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انہوں نے سری لنکن ٹیم کی بس کو قذافی اسٹیڈیم تک پہنچایا تھا۔

سری لنکن ٹیم کی بس لاہور میں جاری ٹیسٹ میچ کے دوسرے دن کے کھیل کیلئے اسٹیڈیم کی جانب رواں دواں تھی اور اس کے آگے دو پولیس کی گاڑیاں بھی موجود تھیں کہ اسی دوران تحریک طالبان پاکستان کے شدت پسندوں نے پولیس کے کاررواں پر گولیوں کی بارش کردی۔

سری لنکن ٹیم کو حملے کے بعد قذافی اسٹیڈیم سے فوجی ہیلی کاپٹر سے سری لنکا پہنچایا گیا— فائل فوٹو: اے ایف پی
سری لنکن ٹیم کو حملے کے بعد قذافی اسٹیڈیم سے فوجی ہیلی کاپٹر سے سری لنکا پہنچایا گیا— فائل فوٹو: اے ایف پی

جانباز ڈرائیور نے بتایا کہ پہلے پہل تو مجھے لگا کہ یہ ہماری مہمان ٹیم کیلئے آتش بازی کا اہتمام کیا گیا ہے لیکن پھر ایک شخص میرے سامنے آ گیا اور کلاشنکوف سے سیدھا میری جانب فائر کیا جس سے مجھے فوراً احساس ہو گیا کہ یہ آتش بازی بالکل نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ شدت پسندوں نے سب سے پہلے پولیس کی گاڑیوں میں موجود ڈرائیورز کو نشانہ بنایا اور خلیل کو ایک گاڑیئ دائیں اور ایک گاڑی بائیں جانب لڑھکتی ہوئی نظر آئی اور انہوں نے درمیان میں راستہ دیکھتے ہوئے ایک لمحے کی بھی دیر کیے بغیر گاڑی کو بھگانا شروع کردیا۔

خلیل نے بتایا کہ دہشت گردوں نے بس پر اندھا دھند فائرنگ جبکہ ایک دستی بم پھینکنے کے ساتھ ساتھ راکٹ بھی فائر کیا لیکن خوش قسمتی سے ان کے دونوں ہی وار خالی گئے۔

خطرات کے سبب بیرون ملک سفر

انہوں نے کہا کہ میرا نہیں خیال کہ اس کے بعد بس کو قذافی اسٹیڈیم پہنچانے سے قبل میں نے بریک بھی تھے۔

بس کے اسٹیڈیم میں پہنچنے کے بعد ڈرائیور اور مہمان کھلاڑیوں کو سیکیورٹی حصار میں لیا گیا اور ہم اس وقت وہیں رکے جب تک ایک فوجی ہیلی کاپٹر نے ہمیں وہاں سے لے کر اڑان نہ بھر لی۔

اس خطرناک اور دل دہل دینے والے واقعے میں جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کھلاڑیوں کو محفوظ مقام تک پہنچانے پر خلیل کو سری لنکن اور پاکستانی آفیشلز کی جانب سے گولڈ میڈل اور نقد انعام سے بھی نوازا گیا۔

لیکن ملک میں دہشت گرد حملوں کا سلسلہ تھم نہ سکا اور طالبان اپنے قدم جماتے چلے گئے۔

کھلاڑیوں کو بچانے پر پاکستانی ڈرائیور ایک خاص شخصیت بن گئے تھے اور انہیں اپنے اوپر حملوں کا بھی خطرہ تھا جس کے سبب اسی سال کے اختتام پر وہ ملک سے کوچ کر گئے اور پہلے مراکش اور پھر جنوبی افریقہ کا رخ کیا۔

2013 میں ان کی دوبارہ وطن واپسی ہوئی اور انہوں نے پھر سے لاہور میں بس ڈرائیور کا پیشہ اختیار کر لیا۔

جانباز ڈرائیور خلیل نے اس جگہ کا دورہ کیا جہاں سری لنکن ٹیم پر حملہ کیا گیا تھا— فائل فوٹو: اے ایف پی
جانباز ڈرائیور خلیل نے اس جگہ کا دورہ کیا جہاں سری لنکن ٹیم پر حملہ کیا گیا تھا— فائل فوٹو: اے ایف پی

تاہم اب سیکیورٹی صورتحال میں بہتری کے ساتھ آہستہ آہستہ ملک کی قسمت بھی بدل رہی تھی البتہ دہشت گردوں کی جانب سے کبھی کبھار تخریب کاری کی کوشش کی جاتی رہی۔

ملک میں سیکیورٹی صورتحال بہتر ہونے سے زمبابوے کی ٹیم کا اعتماد بحال ہوا اور انہوں نے 2015 میں پاکستان کا دورہ کر کے 2009 کے بعد پہلی مرتبہ پاکستانی میدانوں کو عالمی کرکٹ سے آباد کیا۔

لیکن بورڈ کی یہ کاوش بھی بڑی عالمی ٹیموں کو پاکستان آنے پر آمادہ نہ کر سکی اور کرکٹ کے متوالے شائقین کو مایوسی نے ایک مرتبہ پھر گھیر لیا۔

پاکستان سپر لیگ نے جہاں ملک کو نئے باصلاحیت کھلاڑی فراہم کیے وہیں رواں سال لیگ کے فائنل کے لاہور میں انعقاد سے پاکستان نے ایک تاریخی سنگ میل عبور کیا اور شاندار انداز میں فائنل کا انعقاد کر کے بڑی ٹیموں کی پاکستان آمد کی راہ ہموار کی۔

بورڈ اور پی ایس ایل حکام کی یہ کوششیں رنگ لے آئیں اور گزشتہ ماہ فاف ڈیو پلیسی کی زیر قیادت عالمی شہرت یافتہ کھلاڑیوں پر مشتمل ورلڈ الیون نے پاکستان کا دورہ کر کے دنیا کو مثبت پیغام دیا۔

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے بھی پاکستان کی کوششوں کو سراہتے ہوئے اسے ایک بہترین قدم قرار دیا گیا البتہ ابھی بھی ملک میں عالمی کرکٹ کی مستقل بحالی کیلئے طویل سفر طے کرنا ہے۔

اب پی سی بی اور آئی سی سی کی مشترکہ کاوشوں کی بدولت سری لنکا نے ٹیم پاکستان بھیجنے پر رضامندی ظاہر کی ہے اور 29 اکتوبر کو پاکستان تین ٹی20 میچوں کی سیریز کے آخری ٹی20 میچ کی لاہور میں میزبانی کرے گا۔

آپ میرے ہیرو ہیں

خلیل نے آٹھ سال قبل حملے کا شکار ہونے والی سری لنکن ٹیم کی پاکستان میں میچ کھیلنے کی کاوش کو سراہتے ہوئے کہا کہ دیکھیں یہ کیا بہادر قوم ہے، ان کے ساتھ یہ اندوہناک واقعہ پیش آیا اور اس کے باوجود یہ ٹیم کھیلنے کیلئے پاکستان آ رہی ہے۔

’پورے پاکستان کو انہیں خصوصی پروٹوکول دیتے ہوئے دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہنا چاہیے‘۔

مہر خلیل حملے کی جگہ پر اپنے بیٹے کے ساتھ خوشگوار موڈ میں نظر آ رہے ہیں— فوٹو: اے ایف پی
مہر خلیل حملے کی جگہ پر اپنے بیٹے کے ساتھ خوشگوار موڈ میں نظر آ رہے ہیں— فوٹو: اے ایف پی

تاہم ساتھ ساتھ اس پاکستانی ڈرائیور نے حکام پر زور دیا کہ وہ تمام غیر ملکی کھلاڑیوں کیلئے ’فول پروف سیکیورٹی‘ کا اہتمام کریں۔

انہوں نے ایک مرتبہ پھر ماضی کے جھرنکوں میں جھانکتے ہوئے انکشاف کیا کہ دہشت گرد حملے سے ایک دن قبل رات میں سری لنکن کھلاڑی بہت پریشان تھے اور کمار سنگاکارا نے مجھے سے پوچھا کہ ’کیا ہم پاکستان میں محفوظ ہیں‘؟۔

’میں نے انہیں کہا کہ کچھ نہیں ہو گا اور خدانخواستہ کچھ ہوا تو مجھے جیسے ہزاروں لوگ آپ لوگوں کیلئے اپنی جان کی قربانی دے دیں گے۔

اگلے ہی دن ان کے خدشات درست ثابت ہوئے اور کمار سنگاکارا سمیت دیگر زخمی کھلاڑیوں سے ملنے ہسپتال گئے۔

خلیل نے بتایا کہ سنگاکارا نے کہا کہ ’تم ایک عظیم انسان ہو، تم میرے ہیرو ہو‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں