اپنے پہلے ہی ون ڈے میچ میں سنچری بنا کر انتخاب ثابت کرنے والے نوجوان پاکستانی بلے باز امام الحق نے اپنے چچا اور عظیم بلے باز انضمام الحق کے نقش قدم پر چلنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

امام الحق کو قومی ٹیم کا حصہ بنایا گیا تو تمام ہی حلقوں نے بھتیجے کو ٹیم میں منتخب کرنے پر چیف سلیکٹر انضمام الحق کو تنقید کا نشانہ بنایا حالانکہ وہ ایک عرصے سے ڈومیسٹک کرکٹ میں صلاحیتوں کے جوہر دکھاتے آ رہے تھے۔

سری لنکا کے خلاف ون ڈے سیریز کے ابتدائی دو میچوں میں احمد شہزاد کی ناکامی پر ٹیم مینجمنٹ نے امام الحق کو ڈیبیو کراتے ہوئے صلاحیتوں کے اظہار کا موقع فراہم کیا اور انہوں نے ٹیم میمنجمنٹ کے اعتماد پر کھرا اترتے ہوئے پہلے ہی میچ میں سنچری اسکور کر کے چچا پر تنقید کرنے والوں کے منہ بھی بند کر دیے۔

سلم الٰہی کے بعد امام الحق اپنے پہلے ہی ون ڈے میں سنچری بنانے والے دوسرے پاکستانی کھلاڑی ہیں جبکہ مجموعی طور پر یہ کارنامہ انجام دینے والے دنیا کے 13ویں بلے باز ہیں۔

امام کو بچپن سے ہی اپنے چچا انضمام الحق کی رہنمائی حاصل رہی اور ساتھ ساتھ ان کے والد نے والدہ کی خواہشات کے برخلاف اسکول کا ناغہ کرنے میں ان کی معاونت کی، کرکٹ کے جنون کی بدولت کم عمری سے کرکٹ کو بہترین انداز میں سمجھ لیا اور 2014 کے جونیئر ورلڈ کپ میں پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز حاصل کیا۔

اس کے بعد امام نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا اور انڈر19، انڈر23 اور فرسٹ کلاس سمیت ہر سطح پر بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سلیکٹرز کی توجہ حاصل کی۔

22 سالہ نوجوان اوپننگ بلے باز نے کہا کہ میں ڈیبیو پر سنچری اسکور کرنے پر بہت فخر محسوس کر رہا ہوں، جب مجھے ملک کیلئے یہ کارنامہ انجام دینے کا پتہ چلا تو مجھے بہت فخر محسوس ہوا۔

ان سے قبل 1995 میں سلیم الٰہی نے بھی سری لنکا کے خلاف گوجرانوالہ میں ڈیبیو پر سنچری اسکور کی تھی۔

امام اپنے چچا انضمام کی طرح جارحانہ انداز میں کرکٹ کھیلنے پر یقین رکھتے ہیں اور ان میں اور انضمام میں واحد فرق چشمہ اور بائیں ہاتھ سے بلے بازی ہے۔

نوجوان بلے باز نے بتایا کہ انضمام الحق نے میرے کرکٹر بننے میں بہت مثبت کردار ادا کیا اور جب کبھی بھی مجھے مدد کی ضرورت پڑی، تو انہوں نے مجھے وقت دیا، وہ مجھے ہمیشہ کہتے کہ مثبت رہو، بہادر ہو کر کرکٹ کھیلو اور قسمت پر یقین رکھو۔

تاہم اب یہ قسمت کی ستم ظریقی ہی ہے کہ عمدہ پرفارمنس کے باوجود جب انہیں ٹیم میں منتخب کرنے کا وقت آیا تو چیف سلیکٹر کوئی اور نہیں بلکہ ان کے چچا انضمام الحق ہیں اور نوجوان بلے باز کی جونیئر سطح سے اب تک تمام تر کارکردگی کو نظر انداز کر کے ان کے ٹیم میں انتخاب کو انضمام کے بھتیجے کی حیثیت سے دیکھا جا رہا ہے۔

امام الحق بھی صورتحال پر زیادہ خوش نہیں اور انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ یہ میری غلطی نہیں کہ میں انضمام کا بھتیجا ہوں، میں اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتا اور میرے لیے سب سے بہترین طریقہ یہی ہے کہ میں بلے سے جواب دوں اور میں نے یہی کیا۔

سری لنکا کے خلاف میچ میں امام الحق سنچری کی تکمیل کے حوالے سے کسی حد تک خوش قسمت بھی ثابت ہوئے اور 89 کے اسکور پر وہ وکٹ کیپر کے ہاتھوں کیچ ہو کر پویلین لوٹ رہے تھے کہ ان کے بیٹنگ پارٹنر محمد حفیظ نے انہیں پویلین واپسی سے روکتے ہوئے تھرڈ امپائر کے فیصلہ کا انتظار کرنے کا مشورہ دیا۔

ری پلے سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ گیند وکٹ کیپر کے گلوز میں پہنچنے سے قبل زمین پر لگ گئی اور اسی چک کی بنیاد پر تھرڈ امپائر نے امام کے حق میں فیصلہ دیا۔

امام نے کہا کہ مجھے اس وقت بہت برا محسوس ہو رہا تھا، میں جانتا تھا کہ گیند میرے بلے سے لگی ہے، مجھے لگا کہ میں آؤٹ ہو گیا ہوں اور سنچری کرنے کا نادر موقع گنوا دیا ہے لیکن جب مجھے ناٹ آؤٹ قرار دیا گیا تو ایسا لگا کہ مجھے نئی زندگی مل گئی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں