ویسے تو رواں برس کے آغاز میں ہی سام سنگ نے سب کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اسمارٹ موبائل فونز بنانے والی سب سے بڑی کمپنی کا اعزاز حاصل کرلیا تھا۔

اور اب تک اسمارٹ فونز بنانے والی سب سے بڑی کمپنی بھی جنوبی کورین کمپنی سام سنگ ہی ہے۔

اسمارٹ موبائل فونز تیار کرنے والی دنیا کی دوسری بڑی کمپنی کا اعزاز امریکی کمپنی ’ایپل‘ کے پاس موجود ہے، جو ڈیڑھ سال قبل تک پہلی پوزیشن پر تھی۔

تاہم اسمارٹ موبائل تیار کرنے والی دنیا کی تیسری بڑی کمپنی کون سی ہے، اس حوالے سے تضاد پایا جاتا ہے۔

کئی اداروں نے چینی کمپنی ’ہواوے‘ کو تیسری بڑی کمپنی کا اعزاز دے رکھا ہے، کیوں کہ رواں برس اس کے اسمارٹ موبائلز کو یورپ کے بعد امریکا میں بھی فروخت کرنے کے لیے مقامی پارٹنر مل گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: چینی کمپنی ایپل اور سام سنگ کے لیے خطرہ بن گئی

تاہم اگر دیکھا جائے تو درحقیقت اسمارٹ موبائل کی تیسری بڑی کمپنی ’ہواوے‘ نہیں بلکہ چین کی ایک اور کمپنی’بی بی کے الیکٹرانکس‘ ہے۔

’بی بی کے الیکٹرانکس‘ مختلف کمپنیوں کا مجموعہ ہے، جو نہ صرف اسمارٹ موبائلز بلکہ ایل سی ڈی، کمپیوٹر اور دیگر اسمارٹ آلات بھی تیار کرتی ہے۔

معروف موبائل برانڈ ’اوپو‘، ’ویوو‘ اور ’ون پلس‘ بھی اس کمپنی کی ذیلی کمپنیاں ہیں۔

تاہم کئی اداروں کی جانب سے اوپو، ویوو اور ون پلس کو الگ الگ کمپنیوں کے طور پر شمار کیا جاتا ہے، جس وجہ سے ’بی بی کے الیکٹرانکس‘ کو تیسری بڑی کمپنی کے طور پر شمار نہیں کیاجاتا۔

اگر ایک ہی برانڈ کی بات کی جائے تو ’ہواوے‘ تیسرے نمبر پر آئے گی، لیکن اگر بطور کمپنی دیکھا جائے تو ’بی بی کے الیکٹرانکس‘ تیسرے نمبر پر آئے گی۔

مزید پڑھیں: سمارٹ فون دنیا پر سام سنگ کی راج جاری

’ہواوے‘ اور ’بی بی کے الیکٹرانکس‘ دونوں ہی چینی کمپنیاں ہیں۔

گجٹس ناؤ نے گزشتہ ماہ ستمبر میں اپنی رپورٹ میں ’ہواوے‘ کو تیسرے، اور ’بی بی کے الیکٹرانکس‘ کی ’اوپو‘ کو چوتھے نمبر رکھا تھا۔

جب کہ اسی رپورٹ میں ’بی بی کے الیکٹرانکس‘ کی ہی ذیلی کمپنی ’ویوو‘ کو پانچویں نمبر پر رکھا گیا تھا۔

لیکن اگر ’بی بی کے الیکٹرانکس‘ کی ذیلی کمپنیوں ’اوپو‘، ’ویوو‘ اور ’ون پلس‘ کو ملایا جائے تو ضرور یہ کمپنی تیسرے نمبر پر ہی آئے گی۔

گجٹس ناؤ کی رپورٹ میں چھٹے نمبر پر بھی ایک چینی کمپنی تھی، جب کہ ساتویں نمبر پر جنوبی کورین کمپنی ایل جی تھی۔

یوں اسمارٹ موبائل تیار کرنے والی دنیا کی سات بڑی کمپنیوں میں سے صرف ایک امریکی، 2 جنوبی کورین اور 4 چینی کمپنیاں شامل ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں