پشاور ہائیکورٹ نے وفاقی حکومت کو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سابق ترجمان اور جماعت الحرار کے کمانڈر احسان اللہ احسان کے حوالے سے تفصیلی جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

خیال رہے کہ احسان اللہ احسان کا تعلق کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا اور وہ اس تنظیم کے ترجمان کی حیثیت سے کام کررہے تھے، ان پر ملک میں ہونے والے متعدد حملوں میں ملوث ہونے کا الزام بھی ہے۔

ان کے حوالے سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ انہوں نے خود سیکیورٹی اداروں کو گرفتاری دی تھی اور وہ اس وقت سیکیورٹی اداروں کی تحویل میں ہیں۔

مزید پڑھیں: احسان اللہ احسان کے انکشافات سے بھارتی عزائم بےنقاب: دفترخارجہ

پشاور کے آرمی پبلک اسکول کے ایک مقتول طالب علم کے والد کے وکیل فضل خان ایڈووکیٹ نے پشاور ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی تھی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ آرمی پبلک اسکول سمیت دیگر مختلف دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے پر احسان اللہ احسان کے خلاف فوجی عدالت میں ان کا ٹرائل کرنے کی ہدایت کی جائے۔

منگل کے روز وفاقی حکومت نے ایک انتہائی مختصر جواب کے ذریعے عدالت کو بتایا کہ احسان اللہ احسان کے خلاف کیسز کی تحقیقات کی جاری ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: احسان اللہ احسان کے اعترافی بیان میں کچھ نیا نہیں، جنرل (ر) خالد

جس پر عدالت نے وفاقی حکومت کے جواب پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور آئندہ کی سماعت پر اس حوالےسے تفصیلی جواب جمع کرانے کی ہدایت کی۔

واضح رہے کہ 16 دسمبر 2014 کو پشاور میں واقع آرمی پبلک اسکول پر تباہ کن حملے میں 144 بچے اور عملے کے ارکان جاں بحق ہوئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں