ریاض: سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے مطابق ان کا ملک اب اپنی معیشت کا انحصار تیل پر سے ختم کرنا چاہتا ہے اور اس حوالے سے 500 ارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر کیا جانے والا سعودی عرب کا میگا سٹی ایک اہم کردار ادا کرتا نظر آئے گا۔

ولی عہد محمد بن سلمان نے گذشتہ روز ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ سعودی عرب کی سب سے بڑی سرکاری تیل فروخت کرنے والی کمپنی ارامکو کے شیئرز اگلے سال تک اسٹاک مارکیٹس میں دستیاب ہوں گے اور قومی تیل کمپنی کی قدر میں دو کھرب ڈالر تک کا اضافہ ہوسکتا ہے لیکن کچھ سرمایہ کاروں کے نزدیک یہ رقم غیر حقیقی حد تک زیادہ ہے۔

ساڑھے 26 ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل نیوم نامی یہ نیا علاقہ اردن اور مصر کی سرحدوں تک پھیلا ہوگا، محمد بن سلمان کا یہ حیران کن اعلان نجکاری کے منصوبوں میں تازہ ترین اور سب سے حیران کن سمجھا جا رہا ہے۔

مزید پڑھیں: سعودی ولی عہد کا سعودیہ کو 'ماڈریٹ اسلامی ریاست' بنانے کا عزم

جدید ترین ٹیکنالوجی سے آراستہ مستقبل کا یہ نیا زون اصلاحات کا مرکز ہوگا جہاں نئی نوکریاں پیدا ہوں گی، کاروبار کی حوصلہ افزائی ہوگی اور سخت گیر مذہبی روایات اور ریاست پر انحصار میں دبے ہوئے سعودی شہریوں کو نئی آزادیاں حاصل ہوں گی۔

شہزادہ محمد، جو سلطنت کے اگلے بادشاہ ہوں گے، کا کہنا تھا کہ "یہ دنیا کا پہلا سرمایہ دارانہ شہر ہوگا جبکہ یہ منفرد اور انقلابی ہوگا"۔

بحرِ احمر اور خلیجِ عقابہ اور سوئز کینال استعمال کرنے والے بحری راستوں کے ساتھ واقع نیوم کنگ سلمان برج کا گیٹ وے ثابت ہوگا، یہ مجوزہ برج سعودی عرب کو مصر سے ملائے گا۔

شیئرز فروخت ہونے سے پہلے تک اس زون کا مکمل طور پر مالک سعودی عرب کا خودمختار پبلک انویسٹمنٹ فنڈ ہوگا، اور اس میں صاف توانائی، بائیوٹیکنالوجی، جدید ترین صنعتکاری اور تفریحی شعبوں میں سرمایہ کاری کے مواقع ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی خواتین کو پہلے اس کی اجازت نہ تھی....

اس علاقے کے رہائشیوں کو زیادہ لبرل طرزِ زندگی میسر ہوگا، یہاں تفریح کے دیگر مواقعوں کے ساتھ میوزک کانسرٹ بھی ہوا کریں گے۔

سعودی عرب پہلے ہی کئی پرانے قوانین میں تبدیلی لا رہا ہے، جس میں ایک تبدیلی خواتین کی ڈرائیونگ سے پابندی کا خاتمہ بھی ہے۔

معتدل اسلام

سعودی عرب کے ولی عہد نے منگل کے روز اپنی اصلاحات کے سماجی پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ وہ ملک میں اعتدال پسند اسلام چاہتے ہیں اور انتہاپسندی کا خاتمہ کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ "ہم ایک عام زندگی گزارنا چاہتے ہیں جو ہمارے برداشت پر مبنی مذہب اور ہماری دنیا کے باقی لوگوں کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ رہنے کی ترجمان ہو، تاکہ ہم اپنے ملک اور دنیا کی ترقی کے لیے کام کر سکیں"۔

لندن اسکول آف اکنامکس کے اسٹیفین ہرٹوگ کا کہنا تھا کہ سعودی معاشرے کا ایک بڑا حصہ سماجی اور عوامی زندگی پر ریاست کے سخت گیر کنٹرول کا خاتمہ چاہتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ "میں نہیں سمجھتا کہ ولی عہد کے بیانات صرف دکھاوا ہیں، وہ حقیقت میں ان باتوں پر عمل کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے انہوں نے کئی اہم اقدامات اٹھائے ہیں، جس میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینا اور مذہبی پولیس کے اختیارات کو کافی حد تک کم کرنا شامل ہیں"۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 27 اکتوبر 2017 کو شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Rizwan Ali Oct 27, 2017 06:23pm
MashaAllah
Rizwan Ali Oct 27, 2017 06:28pm
MashaAllah