گزشتہ دنوں پاکستانی ہدایتکارہ اور فلمساز شرمین عبید چنائے نے ٹوئٹر پر کچھ پیغامات پوسٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب آغا خان ہسپتال (اے کے یو) میں جانے والی ان کی بہن کو علاج کرنے والے ڈاکٹر نے فیس بک پر ایڈ کرنے کی کوشش کی تھی۔

انہوں نے 23 اکتوبر کو اپنے پیغامات میں لکھا ' گزشتہ شب میری بہن اے کے یو ایمرجنسی میں گئی اور وہاں کے ڈاکٹر نے اسے فیس بک پر ایڈ کرنے کی کوشش کی'۔

انہوں نے کہا ' میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آخر ایمرجنسی میں موجود ڈاکٹر اس سوچ کو ٹھیک سمجھتا ہے کہ کسی خاتون مریضہ کی تفصیلات حاصل کرکے اسے فیس بک پر ایڈ کرے، یہ اخلاقیات کے خلاف ہے'۔

ایک اور پیغام میں انہوں نے اسے ہراساں کرنا کہتے ہوئے اسے روکنے کا مطالبہ کیا۔

یعنی ابتدائی دو ٹوئیٹس میں شرمین عبید چنائے نے اسے سرحدوں کی خلاف ورزی قرار دیا اور تیسرے میں اس واقعے کو 'ہراساں' کرنا کہا، جبکہ انہوں نے ڈاکٹر کے خلاف ایکشن لینے کا بھی کہا۔

مزید پڑھیں : غیرت کے نام پرقتل کے خلاف شرمین عبید کی مہم

اب جمعہ کی صبح سوشل میڈیا پر یہ افواہ گردش کرنے لگی کہ اس متعلقہ ڈاکٹر کو آغا خان یونیورسٹی ہسپتال نے فارغ کردیا ہے۔

اے کے یو انتظامیہ نے اس افواہ کی تصدیق یا تردید سے انکار کرتے ہوئے کہا ' آغا خان یونیورسٹی ہسپتال ہمیشہ رازداری کے اعلیٰ ترین معیار کو برقرار رکھتا ہے اور کبھی بھی کسی ملازم یا مریض کے بارے میں معلومات جاری نہیں کرتا'۔

دوسری جانب غیرمصدقہ رپورٹس میں یہ دعویٰ سامنے آرہا ہے کہ ڈاکٹروں کو جانے دیا گیا ہے۔

اس واقعے پر اپنی ٹوئیٹس کے نتیجے میں شرمین عبید چنائے کو بھی سوشل میڈیا پر لوگوں کے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔

معروف شخصیات جیسے علی معین نوازش کا ماننا ہے کہ شرمین نے فیس بک فرینڈ ریکوئسٹ کو ہراساں کرنے قرار دے کر اس ہراساں ہونے والے حقیقی متاثرین کی تکلیف کو غیراہم کردیا ہے۔

ایک پوسٹ میں متعلقہ ڈاکٹر کے ایک ساتھی نے یہ تاثر دیا کہ معروف ہدایتکارہ نے ڈاکٹر کی برطرفی کے لیے اپنی شہرت کی طاقت کا غلط استعمال کیا۔

اس حوالے سے لوگوں کا ردعمل ملا جلا ہے جن میں سے کچھ فیس بک فرینڈ ریکوئسٹ کو ہراساں کرنا قرار دے رہے ہیں جبکہ کچھ ڈاکٹر کو ملنے والی سزا کا زیادہ قرار دے رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : شرمین عبید چنائے کے نام ایک اور آسکر ایوارڈ

تاہم شرمین عبید چنائے کی جانب سے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اپنے خاندان کی طاقت استعمال کرنے کا تاثر بھی غلط قرار دیا جارہا ہے، جو کہ خود ان کی اپنی فلموں سے متضاد ہے جس میں عدالتی نظام کو مساوی بنیادوں پر کام کرنے کا کہا جاتا ہے۔

انگلش میں پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں