کیا کمیٹی ڈالنے سے واقعی پیسوں کی بچت ہوتی ہے؟

اپ ڈیٹ 31 اکتوبر 2017
ملک میں لوگ بچت کرنےکےباوجود بھی بچت کے میدان میں پیچھے ہیں کیونکہ کمیٹی سے کی گئی بچت مالیاتی نظام کو بائی پاس کرتی ہے۔—فوٹو: جوائے سیولے / شٹراسٹاک
ملک میں لوگ بچت کرنےکےباوجود بھی بچت کے میدان میں پیچھے ہیں کیونکہ کمیٹی سے کی گئی بچت مالیاتی نظام کو بائی پاس کرتی ہے۔—فوٹو: جوائے سیولے / شٹراسٹاک

بیگم سلیم کے گھر پر آج بہت ہی رونق لگی ہوئی ہے۔ محلے بھر کی خواتین اور رشتہ دار جمع ہیں، لیکن حیرانی کی بات یہ کہ نہ تو آج کسی کی شادی ہے اور نہ خوشی یا غم کا کوئی اہم موقع اور نہ ہی کوئی تہوار مگر اتنی تعداد میں خواتین جمع کیوں ہیں؟

آج بیگم سلیم کمیٹی ڈال رہی ہیں اور ہر خاتون اِس کمیٹی میں اپنا اپنا حصہ ڈالنے اور اِس عمل میں شرکت کرنے آئی ہے۔ اب آپ پوچھیں گے یہ کمیٹی ہے کیا؟

برِصغیر کے معاشرے میں لوگ نہایت قریبی معاشرتی تعلقات کے ساتھ رہتے ہیں، خوشی غمی تہوار سب مل کر مناتے ہیں اور یہی حال باہمی معیشت کا بھی ہے۔ کمیٹی جسے (BC) بھی کہا جاتا ہے یعنی Beneficiary Committe۔ یہ مستقبل کی مالی ضروریات کو پورا کرنے کا ایک سماجی طریقہ کار ہے، جس میں اِرد گرد کی خواتین جمع ہوکر ماہانہ بچت کے حساب سے ایک مقررہ رقم طے کرتی ہیں جو کہ اُنہیں ہر مہینے کسی ایک خاتون کے پاس جمع کروانی ہوتی ہے۔

بیگم سلیم نہ صرف کمیٹی ڈالتی ہیں بلکہ وہ ہر ماہ کمیٹی جمع کرنے اور اِس کے لینے والے تک پہنچانے کی پابند ہیں۔ ہر ماہ کھلنے والی کمیٹی کی جمع شدہ رقم کو اُس خاتون تک پہنچایا جاتا ہے جس کی کمیٹی کھلتی ہے تاکہ جن مقاصد کے حصول کے لیے کمیٹی بھری گئی تھی وہ پوری کی جاسکے۔ یہ ہے پاکستان اور برصغیر میں بچت کرنے کا وہ طریقہ جو یہاں عام طور پر رائج ہے۔ یہ نظام اِس قدر مضبوط اور مستحکم ہے کہ بینک اور دیگر مالیاتی ادارے پُرکشش اسکیمیں ہونے کے باوجود کمیٹی کا مدِمقابل کوئی نظام بھی وضع کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔

کمیٹی کا نظام نہایت ہی ڈھیلا ڈھالا سا ہوتا ہے۔ کس مہینے کس خاتون کو کمیٹی دینی ہے، یہ طے کرنے کے لیے باہمی رضامندی پیدا کی جاتی ہے یا پرچیاں ڈال کر فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اِس میں بھی اگر کسی خاتون کو درکار مہینے پر کمیٹی نہ مل رہی ہو تو وہ متعلقہ خاتون سے نمبر تبدیل کروالیتی ہے۔ اگر کسی خاتون کی ماہانہ بچت کمیٹی کی ماہانہ طے کردہ رقم سے کم ہو تو دو یا تین یا چار خواتین مل کر بھی کمیٹی میں شامل ہوسکتی ہیں۔

کمیٹی کا یہ نظام نہ صرف گھریلو خواتین میں مشہور ہے بلکہ کاروباری حضرات میں بھی کمیٹی کے ذریعے رقوم جمع کرنے کا رُجحان پایا جاتا ہے۔ کراچی کی جوڑیا مارکیٹ میں محمد رمضان بھائی (نام تبدیل کیا گیا ہے) کمیٹی ڈالتے ہیں۔ اُن کی کمیٹی میں ماہانہ زر کی مالیت کم از کم ایک لاکھ روپے ہے اور ماہانہ کئی لاکھ روپے تک کمیٹی جاتی ہے۔

رمضان بھائی کے پاس کمیٹی ڈالنے کے لیے کئی طریقے کار موجود ہیں۔ بعض تاجر یومیہ، بعض ہفتہ وار اور بعض ماہانہ بنیادوں پر کمیٹی جمع کرواتے ہیں۔ اِس مقصد کے لیے رمضان بھائی نے باقاعدہ اسٹاف بھرتی کیا ہوا ہے جو کہ تمام حسابات رکھتا ہے۔ کمیٹی کی خدمات فراہمی کے عوض رمضان بھائی معمولی سی فیس بھی چارج کرتے ہیں اور اِس کمیٹی کے پیسے کو مارکیٹ میں گھما پھیرا کر کچھ نہ کچھ مزید بھی کمالیتے ہیں۔

کس تاجر کو اُس کی کمیٹی کس مہینے ملے گی، اِس بات کا تعین پرچیاں ڈال کر کیا جاتا ہے۔ اگر کسی تاجر کو فوری رقم درکار ہو اور اُس کی کمیٹی فوری نہ کھلے تو وہ بولی لگا کر اپنے نمبر کی کمیٹی خرید لیتا ہے۔ اِس طرح معمولی کمی ہی سہی مگر وقت پر رقم کا بندوبست تو ہو ہی جاتا ہے۔

کمیٹی کا نظام بیگم سلیم کا ہو یا بھائی رمضان کا دونوں میں ایسے افراد کو شامل کیا جاتا ہے جن پر سب کو مکمل بھروسہ ہو اور لین دین میں کھرے ہوں۔ چنانچہ یہ عمل زیادہ تر ایک ہی کمیونٹی میں قائم رہتا ہے۔ کمیٹی کے ممبران بڑھانے کی کوشش یا لالچ میں نہیں پڑا جاتا ہے۔

کمیٹی جیسی بچت میں دو طرح کے نقصانات ہیں

  • ایک تو یہ بچت کسی حکومتی یا مالیاتی نظام کا حصہ ہونے کے بجائے ایک علیحدہ معاشی نظام کے طور پر کام کرتا ہے۔

  • کمیٹی میں اصل زر ہی واپس ملتا ہے۔

  • جس میں سے اگر افراط زر کو منہا کردیا جائے تو اصل رقم کی قُوت خرید منفی ہوجاتی ہے۔

بینکاروں اور معاشی ماہرین کے مطابق کمیٹی کے اِس نظام میں سب سے بڑی خرابی ہے کہ پاکستان میں لوگ بچت کرنے کے باوجود بھی بچت کے میدان میں سب سے پیچھے ہیں کیونکہ یہ بچت قائم مالیاتی نظام کو بائی پاس کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بینکوں اور مالیاتی اداروں کے ذریعے بچت کی شرح صرف 14 فیصد ہے جبکہ دنیا بھر میں یہ شرح 28 فیصد سے زائد ہے۔

چین اپنی بچت کے لحاظ سے دنیا میں مُمتاز حیثیت رکھتا ہے۔ چینی عوام نے اپنی بچتوں کو بینکوں اور مالیاتی اداروں میں سرمایہ کاری کی اِس سرمائے کو چین کے بڑے بڑے صنعتی یونٹس اور انفرااسٹرکچر منصوبے بنانے میں استعمال کیا گیا اور اِس طرح چین ایک بڑی طاقت بننے میں کامیاب ہوا۔ جس ملک میں بچت مالیاتی نظام کے ذریعے کی جائے گی وہاں کی معیشت کو ترقی کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ مالی وسائل دستیاب ہوں گے۔

مُلکی بچت کے فوائد سے متعلق آگاہی کے لیے عالمی سطح پر 31 اکتوبر کو عالمی یومِ بچت یا ورلڈ سوینگ ڈے منایا جاتا ہے۔ اِس دن کا مقصد عوام میں انفرادی سطح پر بچت کرنا اور اِس بچت کو منافع بخش اسکیموں میں لگانا شامل ہے۔ اِس حوالے سے ایک تنظیم ڈیلیو ایس بی آئی کے نام سے کام کر رہی ہے۔ یہ تنظیم بچتوں کے حوالے سے آگاہی مہم چلانے کے علاوہ پالیسی فریم ورک اور دیگر امور پر بھی کام کرتی ہے۔

پاکستان میں عوامی سطح پر بچت کے اِسی انداز کی وجہ سے عوام اپنی بچتوں کو مالیاتی نظام میں لگانے کا رُجحان بہت کم ہے اور اِسی بات کی عکاسی برطانوی بینک اسٹینڈرڈ چارٹر کی رپورٹ میں بھی ہوئی جس میں پاکستان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ عہدوں پر فائز (Emerging Affluent) ایسے افراد سے بچتوں کے بارے میں رائے لی گئی جو کہ ماہانہ اخراجات کے علاوہ اپنی آمدنی کا ایک حصہ بچت کرسکتے تھے۔

سروے کے نتائج میں اِس بات کا انکشاف ہوا کہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی بچت کرنے کے معاملے میں فرسودہ خیالات کے حامل ہیں اور بچت کو گھروں میں رکھنے یا اثاثوں (سونا، پلاٹ یا دیگر اثاثے) میں تبدیل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں یا پھر یہ بھی اپنی بچت کو کمیٹی میں شامل کرلیتے ہیں۔

ترقی پذیر ملکوں میں عوامی بچت کے حوالے سے اسٹینڈرڈ چارٹر بینک کے سروے میں پاکستان کے علاوہ چین، بھارت، کوریا، ہانگ کانگ، تائیوان، سنگاپور، کینیا کے ایمرجینگ ایفولینٹس کو شامل کیا گیا ہے اور اِس سروے میں ہر ملک کے ایک ہزار افراد سے رائے لی گئی۔ سروے میں یہ بھی پتہ چلا ہے کہ دیگر قوموں کے مقابلے میں پاکستانی زیادہ شاہ خرچ ثابت ہوئے ہیں۔ 28 فیصد پاکستانی اپنی رقوم کو فوری خرچ کرتے ہیں جبکہ چین میں یہ شرح 22 فیصد اور بھارت میں 20 فیصد ہے۔

پاکستانیوں کے لیے بچت کی سب سے بڑی وجہ اور ترجیح اُن کے بچے ثابت ہوئے ہیں۔ سروے کے مطابق 29 فیصد پاکستانی بچوں کی تعلیم، 9 فیصد اُن کی شادی کے لیے بچت کرتے ہیں جبکہ 11 فیصد ناگہانی آفات اور بیماری اور مشکل وقت کے لیے پس انداز کرتے ہیں۔

پاکستان میں 38 فیصد پڑھے لکھے اور اعلیٰ متوسط طبقے کے لوگ بچت کھاتوں میں رقوم رکھتے ہیں۔ اِس کے علاوہ 3 فیصد ٹائم ڈیپازٹس، 4 فیصد میوچل فنڈز جبکہ 50 فیصد اپنے گھروں میں نقد رکھتے ہیں۔ 8 فیصد جائیداد میں اپنی بچت لگاتے ہیں، فکسڈ انکم سکیورٹیز میں ایک فی صد جبکہ کمپنی پنشن فنڈ اور ریگولیر ڈیپازٹ سیونگ پلان میں رقوم رکھنے والوں کی شرح صفر فی صد نکلی ہے۔

اِس سروے میں بتائے گئے اعداد و شمار کی گواہی خود پاکستانی اداروں کے اعداد و شمار بھی دیتے ہیں۔ پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں حصص کا لین دین کرنے کے لیے 2 لاکھ 82 ہزار سی ڈی سی کے سب اکاوئنٹس کھولے گئے ہیں مگر انفرادی سرمایہ کاروں کی تعداد 51 ہزار ہے۔ میوچل فنڈ انڈسٹری کی حالت اِس سے بھی مخدوش ہے، 292 میوچل اور پنشن فنڈز میں سرمایہ کاری کا حجم 764 ارب روپے ہے۔

عوام میں سرمایہ کاری میں سود کا عنصر بھی مالیاتی اداروں میں رقوم رکھوانے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ پاکستانی بینکوں میں موجود 11 ہزار ارب روپے سے زائد کی رقوم میں صرف 4 ہزار ارب روپے بچت کھاتوں میں رکھے گئے ہیں، جس میں طویل مدت کے لیے ٹرم ڈیپازٹ میں 2 ہزار ارب روپے رکھے گئے۔ اِس کی وجہ بینکوں کی جانب سے مناسب منافع نہ دینے کے علاوہ بینکوں کی جانب سے بچت کھاتوں کی حوصلہ شکنی ہے اور اِس عمل سے بچتوں کو مزید نقصان پہنچا ہے۔

رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ اگر پاکستانی گھر تک محدود یا روایتی بچت کرنے کے بجائے مالیاتی نظام میں بچتوں کو لگائیں تو اصل زر کے علاوہ بہترین منافع بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اگر کم رسک والی اسکیموں میں رقوم رکھوائی جائیں تو پرنسپل رقم کے علاوہ آئندہ دس سال میں منافع 48 فیصد تک ہوسکتا ہے اگر زیادہ رسک والے سیکٹرز میں رقوم رکھی جائیں تو منافع 86 فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔

مذکورہ اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان میں بینکاری اور دیگر مالیاتی ادارے عوام میں وہ اعتماد قائم نہیں کرسکے ہیں جن کے ذریعے وہ اپنی بچت کی سرمایہ کاری کرسکیں اور یہی وجہ ہے کہ ملک کے طول و عرض میں کمیٹی نظام پوری طرح سے بینکاری نظام سے باہر ہے۔

مالیاتی اداروں کو اِس بات پر توجہ دینی ہوگی کہ وہ کون سی مصنوعات متعارف کرائیں کہ جس کے ذریعے وہ مُحلے کی سطح پر ڈالی جانے والی کمیٹی کے بجائے اُن کی بچت اسکیموں میں سرمایہ کاری کی طرف راغب ہوں۔

اِس حوالے سے بینکوں اور مالیاتی اداروں کو اپنے کاروباری نیٹ ورک کو ملک کے پسماندہ اور دیہی علاقوں تک توسیع دینے کے علاوہ اپنی مارکٹنگ میں موجود خامیوں کا بھی جائزہ لینا ہوگا کہ آخر کیوں وہ تعلیم یافتہ افراد کو بچتوں کی جانب راغب کرنے میں کامیاب نہیں ہو پارہے ہیں اور آخر کب وہ عوام کی روایتی بچت کے طریقے کے مقابلے میں خود کو مضبوطی سے کھڑا کر پائیں گے۔

تبصرے (11) بند ہیں

احسن Oct 31, 2017 02:07pm
یہ ایک بہت اچھی تحریر ہے۔ اس میں سماجی معاشی نظام، بینکاری نظام اور دونوں کی خوبیوں اور خامیوں کو بیان کیا گیا ہے۔ پاکستان میں بچت اور سرمایہ کاری کے کیا مواقع ہیں ان کی تٖفصیلات بھی دی جائیں تو ایک عظیم خدمت ہوگی۔ عوام کو ابھی تک نہیں پتہ کہ اسٹاک مارکیٹ میں کیسے سرمایہ کاری کی جائے، میوچل فنڈ کیا ہوتے ہیں وغیر وغیرہ
سعید Oct 31, 2017 03:36pm
میں خود بینک میں رقم رکھتا ہوں مگر کرنٹ اکاؤنٹ میں عوام کا پاکستانی مالیاتی اداروں پر بد اعتمادی سب سے بڑی وجہ ہے یہاں فراڈ بازی والے زیادہ ہیں ۔لیکن کمیٹی کا نظام بہت مضبوط ہے اور اسکی کامیابی کی وجہ اعتماد ہے ، مذھبی طبقہ بینک اور اس سے ملتی جلتی سکیموں کو سود کہتا ہے وہ اس لیے دور ہیں ، سیکورٹی کے نام پر پراسیس اتنا مشکل ہوکیا ہے کہ اب اور لوگ دور ہو رہے ہیں ،
Zareef Oct 31, 2017 06:35pm
In Pakistan Financial institution reputation is not also very good.
خورشید رحمانی Oct 31, 2017 08:11pm
راجہ کامران صاحب کا بلاگ عمدہ ہے۔۔۔بلاگ میں کمیٹی اور بچت کا زکر زبردست ہے۔۔۔۔
kamran sohail Oct 31, 2017 08:13pm
راجہ بھائی کیا خوب لکھا ہے
حامد الرحمٰن Oct 31, 2017 08:50pm
اچھی اور معلوماتی تحریر ہے ۔۔۔ اچھے موضوع پر قلم اُٹھایا ہے ، مالیاتی اداروں پر بداعتمادی اور سودی نظام کے سبب عوام کی اکثریت بینکاری نظام سے دوری ہے
ghulam hussain Oct 31, 2017 10:24pm
آپ نے اپنے تجزیے میں جس بات کو شامل نہیں کیا وہ ہے مالیاتی اداروں کی طرف سے عوام کی حوصلہ شکنی اور ان کے سٹاف کا صارف کے ساتھ غیر انسانی برتاؤ کیا کوئی یہ برداشت کرے گا کہ میرے ہی پیسوں کی بچت سے تنخواہیں لینے والا مجھ پر احسان جتلاۓ اور اگر مجھے کبھی اپنی رقم وقت سے پہلے لینے کی ضرورت پیش آئے تو اس میں کئی قسم کی کٹوتیوں کے بعد میری اصل رقم سے بھی کم واپس ملیں تو میں اپنی رقم کیوں کسی رسک والی جگہ پر لگاؤں کیوں نہ میں اپنی رقم اس خالہ یا چاچے کے پاس رکھوں جو آدھی رات کو بھی میری ضرورت پوری کرے اور مجھ سے عزت سے بھی پیش آۓ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ہمار تنخواہوں پر پلنے والے ہمیں کتوں کی طرح کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں اور ہماری کمائی سے چلنے والے ادارے ہمارا ہی خون نچوڑتے ہیں
I.M. Khan Nov 01, 2017 11:27am
Banking system itself is not up to the mark in Pakistan specially customer services. I am living abroad and have an account in a reputed bank in Karachi which I operate online every now and then. Many times I sent emails to the bank for some problem and queries but never got any reply. No security for debit card payment at POS as we can't make any payment through our debit card until we enter 'PIN' in other countries. In case of debit card lost any body can misuse it before the card is blocked.
سمیرا Nov 01, 2017 12:54pm
پاکستان میں بچت کمیٹی کے ذریعے ہی کی جاتی ہے۔ اور یہی نظام گاوں دیہات اور شہروں میں رائج ہے۔ مل جل کر ایک دوسرے کی مدد بھی ہوتی ہے۔ اور سود سے بھی بچت ہوجاتی ہے۔
فیصل چیمہ Nov 01, 2017 01:43pm
سلام ویلڈن سر بہت بڑی ریسرچ آپکی لیکن ایتھے کون دماغ کھولے گا اس عوام کے
KHAN Nov 01, 2017 06:53pm
السلام علیکم: بینکوں سے عوام کی اکثریت صرف و صرف سود کی وجہ سے دو بھاگتی ہیں، چند دن قبل مجھے فون آیا کہ آپ کو بینک سے 1 لاکھ سے 20 لاکھ کا قرضہ مل سکتا ہے 17 فیصد سود پر۔۔۔ اور میں دیکھ چکا ہوں کہ سود کے گھن چکر میں پھنسنے والوں کا کیا حال ہوتا ہیں۔ اللہ مجھے اور میرے خیرخواہوں کو بچائے۔ اسٹیٹ بینک کا ریٹ 5.97 % ہے اور مجھے 17 فیصد پر قرضہ دیا جائے گا۔ واہ بھئی واہ۔ پاکستان میں 10 اقساط پر مشتمل کمیٹی فائدہ مند ہی رہتی ہیں۔ سرکاری ڈپازٹ اسکیم میں وقت سے قبل رقم نکالنے پر اصل رقم سے بھی کٹوتی کرلی جاتی ہے۔ خیرخواہ