ریاض: تیل کی دولت سے مالا مال سعودی عرب کے 32 سالہ ولی عہد محمد بن سلمان نے اپنا منصب سنبھالنے کے فوری بعد قدامت پسندی کی شکار سلطنت میں معاشی، سماجی اور مذہبی اصلاحات کے لیے اقدامات شروع کیے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق نوجوان ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے ثقافتی اور معاشی طور پر جو تبدیلیاں کی گئی ہیں وہ خلیجی ریاست کی تاریخ میں کبھی دیکھنے میں نہیں آئیں۔

واضح رہے کہ 3 کروڑ 10 لاکھ آبادی والے سعودی عرب میں آدھی آبادی کی عمر 25 سال سے کم ہے۔

مزید پڑھیں: سعودی ولی عہد کا سعودیہ کو 'ماڈریٹ اسلامی ریاست' بنانے کا عزم

اس حوالے سے اکتوبر کے آخر میں سرمایہ کاروں کے حوالے سے ایک اجلاس میں محمد بن سلمان نے عہد کیا تھا کہ وہ سعودی عرب کو، جو ایک عرصے سے اسلامی جہاد کے جارحانہ نظریے کے حوالے سے جانا جاتا رہا، ’ماڈریٹ اسلامی ریاست‘ بنائیں گے۔

ہم اپنے اگلے 30 برس تباہ کن نظریے کے ساتھ نہیں گزار سکتے، ہمیں ان نظریات کو آج اور ابھی ختم کرنا ہوگا۔

خیال رہے کہ ستمبر میں ایک شاہی فرمان جاری کیا گیا تھا جس کے مطابق خواتین کو ڈارئیونگ کی اجازت دے دی گئی تھی۔

قدامت پسند رہنماؤں کی جانب سے خواتین کی سماجی آزادی کی مخالفت کرنے والوں کو جواب دیتے ہوئے انہوں نے خواتین کی ڈرائیونگ کے حوالے سے فرمان کی حمایت کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی فرماں روا نے اپنے بیٹے کو ولی عہد نامزد کردیا

اس بات کی بھی امید کی جارہی ہے کہ ولی عہد کے دور سلطنت میں سعودی عرب میں عوام کے سینما جانے پر عائد پابندی کا خاتمہ بھی ممکن ہے، یہاں تک سعودی عرب میں مخلوط جشن منانے کو بھی سراہا گیا جو آج سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔

حکومت نے مصدقہ احادیث کے حوالے سے ایک اسلامی مرکز بھی قائم کیا جو انتہا پسندوں کی جانب سے شائع کی جانے والی احادیث کی جانچ پڑتال کرے گا۔

حکومت نے بظاہر مذہبی پولیس کے دائرہ کار میں کمی کی ہے، جن پر طویل عرصے سے عوام کو ہراساں کرنے کا الزام تھا، اور انہیں بڑے شہروں سے تقریباً غائب ہی کردیا گیا۔

کریک ڈاؤن

اصلاحات کے سلسلے میں شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ایک کریک ڈاؤن کیا جس میں ولی عہد کے مقاصد کو روکنے والے علما اور کچھ لبرل کو بھی گرفتار کیا گیا۔

کاروباری محاذ پر ولی عہد کی جانب سے ہفتے کو ایک فرمان جاری کیا گیا جس میں شہزادہ محمد بن سلمان کو اینٹی کرپشن کمیشن کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا۔

جس کے فوراً بعد ایک اور کریک ڈاؤن کیا گیا جس میں مشہور ارب پتی شہزادے الولید بن طلال سمیت درجنوں موجودہ اور سابقہ وزراء کو گرفتار کیا گیا، جس کا مقصد ولی عہد کے تاج کے لیے خود کو مزید مضبوط کرنا تھا۔

مزید پڑھیں: سعودی تاریخ کے سب سے بڑے منصوبے کا اعلان

محمد بن سلمان وژن 2030 کے لیے بڑے پیمانے پر سماجی اور اقتصادی تبدیلیاں کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کا اصل مقصد سعودی عرب کی صرف تیل پر انحصار کرتی معیشت کو تبدیل کرنا ہے۔

اس وقت محمد بن سلمان کے پاس کونسل آف اکنامک اینڈ ڈویلمپنٹ افیئرز کے چیئرمین کا قلمدان بھی ہے، جو اقتصادی پالیسی بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، ساتھ ہی وہ تیل کی ایک بڑی کمپنی آرامکو کی نگرانی بھی کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ پڑوسی ملک یمن میں سعودی اتحادی فوج کی مداخلت کے دوران دو برس سے زائد عرصے تک محمد بن سلمان وزیرِ دفاع رہے، تاہم 5 جون کو ایک ڈرامائی اعلان سامنے آیا جس میں سعودی وراثت کے تخت کے لیے محمد بن نائف کی جگہ محمد بن سلمان کو نامزد کردیا گیا جبکہ محمد بن نائف 2015 سے ہی امیدواروں کی فہرست میں دوسرے نمبر پر تھے۔

خیال رہے کہ 31 اگست 1985 کو پیدا ہونے والے محمد بن سلمان نے ریاض کی کنگ سعود یونیورسٹی سے گریجویشن کیا ہے اور وہ 4 بچوں کے والد بھی ہیں جن میں دو لڑکے اور دو لڑکیاں شامل ہیں۔


یہ خبر 6 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (1) بند ہیں

سید آصف جلال Nov 06, 2017 05:52pm
وقتِ حاضر کے تقاضے اگر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حل کی جائیں تو پورے کئے جائیں تو یہ انقابی اصلاحات کہلائی جائینگی ، ورنہ ہم میں بھی مغربی کلچر و تہذیب میں تفریق ختم ہو جائےگی