پنجاب حکومت کے وکیل ایڈووکیٹ خواجہ حارث نے لاہور ہائیکورٹ کے تین رکنی بینچ کے سامنے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی انکوائری رپورٹ کو غیر متعلقہ قرار دیتے ہوئے بتایا کہ جس مقصد کے لیے تحقیقات کی گئی تھیں وہ مقصد اب ختم ہو چکا ہے۔

جج کی جانب سے تحقیقاتی رپورٹ کو عام کرنے کے احکامات پر خواجہ حارث نے تجویز دی کہ بینچ کے ججز کو ذاتی مشاہدے کے لیے یہ رپورٹ ان کیمرہ پیش کی جاسکتی ہے۔

ایڈووکیٹ خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ مقامی و بین الاقوامی عدالتوں کی جانب حکومت کو اختیار دیا جاتا ہے کہ رپورٹ کو عام کیا جائے یا نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر رپورٹ کو عام کیا جاتا ہے تو یہ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر جاری دونوں کیسز میں ججز کے فیصلوں پر اثر انداز ہو سکتی۔

مزید پڑھیں: سانحہ ماڈل ٹاؤن: باقر نجفی رپورٹ منظرعام پر لانے کا حکم جاری

یاد رہے کہ سانحہ ماڈل ٹاون پر دو ایف آئی آر درج ہیں، جن میں سے ایک پولیس کی جانب سے اور ایک عدالتی احکامات پر ادارہ منہاج القرآن کی جانب سے کی گئی تھی۔

خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ ایک علیحدہ شکایت بھی منہاج القرآن سے انسداد دہشت گردی عدالت میں زیر التوا ہے۔

رپورٹ میں موجود قابل اعتراض مواد کا ذکر کیے بغیر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ اس رپورٹ سے میڈیا میں ایک نئی بحث کا آغاز ہوجائے گا اور یہ عوام کے مذہبی جذبات پر بھی اثر انداز ہوگی جس سے عوام فیصلے سے قبل ہی کسی کو بھی مجرم ٹھہرا سکتی ہے۔

آئین کے آرٹیکل 204 (سی) (جس میں عدالت کی توہین کے معاملات کا ذکر ہے) پر انحصار کرتے ہوئے خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ عدالت کسی بھی شخص کو سزا دے سکتی ہے جو عدالت میں زیر التوا معاملے کے فیصلے سے قبل کسی نتیجے پر پہنچ جائے اور اس رپورٹ کےعام ہونے سے بے گناہی کا قانون بھی اثر انداز ہوگا جو انسان کا حق ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ عدالت کے فیصلے سے قبل کسی کو بھی مجرم قرار دیا جانا قابل برداشت نہیں۔

تاہم جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں عدالت عالیہ کے تین رکنی بینچ نے مشاورت کے بعد رپورٹ کو اگلی سماعت میں ان کیمرہ مشاہدے کے لیے رضامندی کا اظہار کرتے ہوئے سماعت 9 نومبر تک کے لیے ملتوی کردی۔

سماعت کے دوران ایڈووکیٹ اظہر صدیقی کا کہنا تھا کہ کسی حکام کی جانب سے حکومت کو رپورٹ کو منظر عام پر نہ لانے کے اختیارات دینے کے حوالے سے احکامات نہیں جاری کیے گئے۔

ماڈل ٹاؤن سانحہ کے عینی شاہدین کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کسی نہ کسی کو رپورٹ شائع نہ کرنے کے مسئلے کو حل کرنا ہی ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ ماڈل ٹاؤن: انکوائری رپورٹ فراہم نہ کرنے پر توہین عدالت کی درخواست

ایڈووکیٹ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ پٹیشن دائر کرنے والوں نے کسی بھی متعلقہ اداروں سے رابطہ کرنے کے بجائے صرف عدالتوں میں پٹیشن دائر کی ہیں اور حکومت کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے اختیارات کا عدالت میں دفاع کرے۔

ایڈووکیٹ اظہر صدیقی اور ایڈووکیٹ خواجہ احمد طارق اگلی سماعت میں حکومت کی اپیل کے خلاف دلائل دیں گے۔

خیال رہے کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے 21 ستمبر کو پنجاب کے ہوم سیکریٹری کو احکامات جاری کیے تھے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر بننے والی جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کو منظر عام کیا جائے۔

بعد ازاں پنجاب حکومت کی جانب سے اس فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ رپورٹ کو منظر عام پر لائے یا نہیں۔


یہ خبر 7 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں