ممتاز بھٹو کی سندھ نیشنل فرنٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) میں ضم ہونے جبکہ پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی نے سندھ کے بعد کراچی کے شہریوں کو بھی متبادل سیاسی قیادت فراہم کرنے کا اعلان کر دیا۔

کئی ماہ کی بات چیت کے بعد سندھ نیشنل فرنٹ کے وائس چیئرمین امیر بخش بھٹو اور پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے دارالحکومت اسلام آباد میں معاہدے پر دستخط کردیئے۔

اس موقع پر شاہ محمود قریشی نے نومبر کے دوران سندھ میں ایک اور بریک تھرو کا اشارہ بھی دیا جبکہ پی ٹی آئی رہنما نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) میں اتحاد نہ ہونے کی پیش گوئی کرتے ہوئے کراچی کے شہریوں کو متبادل سیاسی قیادت کی پیش کش بھی کر دی۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ممتاز بھٹو کے ساتھ کئی ماہ سے بات چیت جاری تھی اور عمران خان کے دورہ سندھ میں نوجوانوں نے ان کو بھرپور پذیرائی دی۔

مزید پڑھیں: ممتاز بھٹو بیٹے سمیت مسلم لیگ (ن) سے بے دخل

پی ٹی آئی کے رہنما کا کہنا تھا کہ پارٹی نے سندھ کے مختلف شہروں میں بھرپور جلسے کئے اور ان جلسوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سندھ میں نئی سوچ آئی ہے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ سندھ نیشنل فرنٹ کا پی ٹی آئی میں ضم ہونا ہماری وفاقی سوچ کا ثبوت ہے جبکہ سندھ کی بہت سی قدآور شخصیات سے ہماری بات چیت چل رہی ہے۔

انہوں نے دہرایا کہ سندھ کے عوام موجودہ حکمرانوں سے تنگ آ چکے ہیں۔

اس موقع پر سندھ نیشنل فرنٹ کے رہنما امیر بخش بھٹو نے دعویٰ کیا کہ تحریک انصاف ہی وہ واحد جماعت ہے جو تبدیلی لا سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھ نیشنل فرنٹ کو پی ٹی آئی میں ضم کرانے کے لیے عارف علوی نے اہم کردار ادا کیا۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت سندھ میں بہت بڑا خلا موجود ہے اور ہمیشہ اس خلا کو بھٹو خاندان کے کسی فرد نے ہی پورا کیا تاہم ذوالفقار بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے بعد ایسا نہ ہو سکا اور آصف علی زرداری کے داغ دار ماضی اور کردار کے باعث یہ سلسلہ رک گیا۔

امیر بخش بھٹو نے الزام لگایا کہ سندھ کے حکمران تبدیلی نہیں چاہتے جبکہ گزشتہ انتخابات میں پیپلز پارٹی مخالف ووٹ زیادہ پڑے اور فرق اس لیے نہیں پڑا کیوں کہ پیپلزپارٹی کے مخالف ووٹ تقسیم ہو گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: گورنر بننے کے لیے 'انتظار فرمائیے'

خیال رہے کہ اکتوبر 2014 میں سندھ نیشنل فرنٹ اور سندھ قومی اتحاد کے چیئرمین ممتاز بھٹو نے دعویٰ کیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) نے اُنہیں بیٹے سمیت پارٹی سے نکال دیا اور ساتھ ہی دعویٰ کیا تھا کہ اب مسلم لیگ (ن) کا کوئی مستقبل نہیں رہا۔

ممتازبھٹو نے کہا تھا کہ انہوں نے سندھ اور اس کے عوام کی خدمت کرنے کے لیے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن سندھ کے معاملات پر اختلافات کے بعد مسلم لیگ (ن) نے اُنہیں بیٹے سمیت غیر اعلانیہ طور پر پارٹی سے نکال دیا۔

یاد رہے کہ سندھ کی تاریخ میں طویل عرصے تک گورنر رہنے والے عشرت العباد کے عہدہ چھوڑنے پر یہ قیاس آرائیاں کی جارہیں تھی کہ ممتاز بھٹو سمیت مسلم لیگ (ن) کے متعدد رہنما گورنر کی نشست پر براجمان ہونا چاہتے ہیں جبکہ ممتاز بھٹو کو گورنر سندھ مقرر نہ کیے جانے پر ان کے اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے تھے، جس کے بعد ممتاز بھٹو نے شریف خاندان سے اپنی راہیں جدا کرلیں۔

یہ بھی یاد رہے کہ مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونے سے قبل ممتاز بھٹو پی پی پی کا حصہ بھی رہ چکے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں