لباس پہن کر اڑنا ممکن

11 نومبر 2017
—اسکرین شاٹ
—اسکرین شاٹ

ویسے تو دنیا میں اب صرف جہاز ہی نہیں بلکہ موٹر سائکلیں اور کاریں بھی اڑنے لگی ہیں، جنہیں دیکھ کر تیسری دنیا کے لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ انہیں اڑتی کاروں کا نام دیں یا انہیں روڈ پر دوڑتے جہاز کہیں۔

لیکن اب ایک ایسا لباس بھی تیار کرلیا گیا ہے، جسے پہن کر کوئی بھی انسان ہزاروں فٹ کی بلندی تک بیک وقت ہزاروں کلو میٹر تک اڑ سکتا ہے۔

ویسے تو انسان کے اڑنے میں مدد دینے کے لیے اسکائی ڈائیونگ جیسے فن بھی موجود ہیں، مگر یہ لباس ان تمام فنون سے منفرد ہے، یہ ایک عام لباس کی طرح ہے، مگر اس میں انجن بھی لگائے گئے ہیں۔

اس لباس کو انگلینڈ کے نوجوان رچرڈ براؤمنگ نے رواں برس مارچ 2017 میں بنایا تھا، جس پر کئی ماہ تک سخت محت، لاکھوں ڈالرز کی سرمایہ کاری اور اسے پہن کر اڑنے کے کم سے کم تین تجربات کیے گئے، جس کے بعد اس کے موجد کا نام ’گنیز ورلڈ ریکارڈ‘ میں شامل کرلیا گیا ہے۔

موجد کا نام گنیز ورلڈ آف ریکارڈ میں شامل کرلیا گیا—اسکرین شاٹ
موجد کا نام گنیز ورلڈ آف ریکارڈ میں شامل کرلیا گیا—اسکرین شاٹ

رچرڈ براؤمنگ نے اس لباس کو تیار کرنے کے بعد ’گریئویٹی‘ نامی ایک کمپنی بھی بنالی ہے، جس کے تحت آنے والے سالوں میں اس لباس کو دنیا بھر میں فروخت کے لیے پیش کیا جائے گا۔

اس لباس کو لوہے اور دیگر مضبوط چیزوں سے تیار کیا گیا ہے، جب کہ اس میں 2 گیس ٹربائن انجن بھی لگائے گئے ہیں۔

اس لباس کی ڈزائن بھی دیگر لباس کی طرح رکھی گئی ہے، تاہم اس میں 4 اضافی بازو بھی بنائے گئے ہیں، مجموعی طور پر اس لباس میں 6 بازو ہیں، جنہیں ٹربائن انجن کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے۔

لباس پہننے والا شخص 153 کلو میٹر فی گھنٹے کے حساب سے سفر کر سکے گا—اسکرین شاٹ
لباس پہننے والا شخص 153 کلو میٹر فی گھنٹے کے حساب سے سفر کر سکے گا—اسکرین شاٹ

لباس کو ایک کوٹ کی طرح بنایا گیا ہے، اور اس کے پیچھے 2 چھوٹے انجن نصب کیے گئے ہیں۔

اس لباس کو ’باڈی کنٹرولڈ جیٹ پاور سوٹ‘ کا نام دیا گیا ہے، جو خالصتا انسان اپنی جسمانی حرکت سے کنٹرول کرتا ہے۔

اس لباس کو پہننے والا شخص ایک گھنٹے میں 153 کلو میٹر سفر طے کر سکے گا۔

اس لباس کو پہننے والا شخص نہ صرف جہاز کی طرح اڑے گا، بلکہ وہ مرضی کے مطابق اپنے سفر کا رخ بھی تبدیل کر سکے گا۔

ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ اس لباس کو عام فروخت کے لیے کب پیش کیا جائے گا، تاہم کمپنی سرمایہ کاروں کی توجہ حاصل کرنے اور فنڈ جمع کرنے میں مصروف ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں