درگاہ لعل شہباز قلندرمیں خود کش حملے کا مرکزی ملزم گرفتار

اپ ڈیٹ 18 نومبر 2017
لعل شہباز قلندر کے مزار پر حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی—فوٹو:ڈان نیوز
لعل شہباز قلندر کے مزار پر حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی—فوٹو:ڈان نیوز

محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) اور رینجرز نے کراچی کے علاقے منگھوپیر سے رواں سال کے اوائل میں سیہون میں لعل شہباز قلندر کے مزار پر ہونے والے خود کش دھماکے کے مرکزی ملزم کو گرفتار کرلیا۔

سی ٹی ڈی کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) عامر فاروقی نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ ملزم کو رینجرز کے ساتھ مشترکہ کارروائی کےدوران گرفتار کیا گیا۔

عامر فاروقی کا کہنا تھا کہ ملزم کی شناخت نادر علی کے نام سے ہوئی ہے جبکہ کارروائی کے دوران دہشت گرد کے قبضے سے اسلحہ اور دھماکا خیز مواد بھی برآمد ہوا۔

یاد رہے کہ لعل شہباز قلندر کے مزار پر ہونے والے خودکش دھماکے میں 88 افراد ہلاک اور 150 سے زائد زخمی ہوگئے تھے اور اس حملے کی ذمہ داری دہشت گرد تنظیم دولت اسلامیہ (داعش) نے قبول کی تھی۔

مزید پڑھیں:سیہون دھماکا:ہلاکتیں 80ہوگئیں، دھمال معمول کے مطابق کرنے کا اعلان

بعدازاں پاک فوج نے ملک بھر میں آپریشن ردالفساد کا آغاز کرتے ہوئے 'معاشرے میں موجود دہشت گردی کے خطرات کو ختم کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔

سیہون دھماکے کے بعد اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف, وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور قومی سلامتی کے مشیر ناصر جنجوعہ سیہون پہنچے تھے اور دھماکے کے زخمیوں کی عیادت کی تھی۔

لعل شہباز قلندر کے مزار پر ہونے والے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے 'درگاہ لعل شہباز قلندر پر حملے کو ترقی پسند پاکستان پر حملہ قرار دیا گیا تھا'۔

دوسری جانب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی زخمیوں کی عیادت کے لیے سیہون پہنچے تھے۔

یہ بھی پڑھیں:پاک فوج کا ملک بھر میں ’رد الفساد‘ آپریشن کا فیصلہ

ڈی آئی جی سی ٹی ڈی کا کہنا تھا کہ داعش کے کارکنوں کے خلاف کئی کارروائیوں کے بعد پاکستان میں اس کے قدم کمزور پڑ گئے ہیں۔

عامر فاروقی نے کہا کہ 'مستونگ آپریشن کے بعد داعش کے ایک کے بعد ایک دہشت گرد گرفتار ہورہے ہیں اور آج مزاروں پر حملے کرنے والا مرکزی ملزم کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے اور وہ یہاں پر بہت کمزور ہوچکے ہیں'۔

داعش کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 'ان کے کارکن فرار ہوچکے ہیں اور دہشت گرد تنظیم کی موجودگی سرحد پار افغانستان میں ہے'۔

ڈی آئی جی نے مزید کہا کہ 'داعش یہاں کام نہیں کررہی تھی، گروپ کے کارندے مخلتف سیاسی جماعتوں سے منسلک ہوتے تھے، پھر ابتدائی طور پر لشکر جنگھوی میں شامل ہوتے جس کے بعد داعش میں چلے جاتے تھے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'دہشت گردی کے واقعات میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے جو ان گروہوں کو مالی تعاون، تربیت اور ہدف دے دیتے ہیں'۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ فوج کے آپریشن کے بعد یہ گروپ محدود ہوگیا ہے اور 'اب وہ ختم ہوگئے ہیں'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں