اگر آپ بھی نوکری پیشہ ہیں اور بچت کرکے کچھ پیسے بچا رکھے ہیں، جنہیں بہتر اور محفوظ جگہ لگا کر منافع حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ڈان بلاگز اِس حوالے سے آپ کی رہنمائی کرنے کے لیے ایک بلاگ سیریز شروع کررہا ہے۔ یہ سیریز کا دوسرا بلاگ ہے۔ پہلا بلاگ یہاں پڑھیں۔


آج ایک مرتبہ پھر حامد میاں اور احتشام بھائی کی جوڑی چائے کے ہوٹل پر بیٹھی ہے۔ ریاض بھائی بھی کسی لیبر یونین کی میٹنگ نمٹا کر ہوٹل پر پہنچ گئے ہیں، اُن کے ساتھ ایک اور صاحب بھی تھے، پینٹ شرٹ میں ملبوس اور گلے میں ٹائی باندھے کسی بینکار جیسے لگ رہے تھے۔

حامد میاں نے ریاض بھائی کو دیکھتے ہی کہا کہ کیا ہوا ریاض بھائی صاحبزادہ تو غائب ہی ہوگیا ہے؟ کہہ گیا تھا کہ سرمایہ کاری کا کوئی اچھا طریقہ بتائے گا مگر وہ تو ایسا غائب ہوا کہ گدھے کے سر سے سینگ۔

احتشام بھائی اِس بات پر ہنس دیے اور ریاض بھائی نے بھی ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا کہ نوجوان آج کل کچھ مصروف ہے اِس لیے نہیں آیا، کل ہی کہہ رہا تھا کہ اچھے منافع کے لیے حامد میاں کو قومی بچت میں سرمایہ کاری کا مشورہ دیں اُس میں سرمایہ بھی محفوظ ہے اور مناسب منافع بھی ہے۔

نوجوان کہہ رہا تھا کہ وہ حامد میاں کو سمجھا دے گا مگر میں نے منع کردیا۔ بھائی اِن سے ملو یہ ہیں میرے دوست عمران جوکہ قومی بچت میں کام کررہے ہیں۔ میں نے اور عمران بھائی نے محنت کش حقوق کے لیے بہت جدوجہد کی ہے، اب یہ تو افسر ہوگئے ہیں اور یہ بھی ریٹائر ہونے والے ہیں۔ قومی بچت کے بارے میں اِنہی سے پوچھ لیتے ہیں۔

احتشام بھائی نے کہا کہ ارے یہ تو بہت اچھا کام ہوگیا۔ اِس موقع سے تو ہم ضرور فائدہ اُٹھائیں گے۔ تو عمران بھائی یہ بتائیں کہ قومی بچت کا ادارہ ہے کیا اور یہ کس قدر منافع دیتا ہے؟

چونکہ عمران بھائی ایک لیبر لیڈر رہے تھے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ مختصر بات کرتے؟ انہوں نے ادارے کی تاریخ سے بات شروع کی۔ بھائی بات دراصل یہ ہے کہ جیسا کہ آپ کو پتہ ہے کہ انگریزوں نے ہی برِصغیر میں اکثر اداروں کی بنیاد ڈالی۔ ریلوے لائن بھی اُنہی کی بچھائی ہوئی ہے، اِسی طرح اُنہوں نے ہی قومی بچت کا ادارہ بھی متعارف کروایا، جو کو قائم ہوئے اب لگ بھگ 144 سال ہوچکے ہیں۔

اِس ادارے کی بنیاد اُس وقت ڈالی گئی تھی جب انگریز حکومت کو پہلی جنگِ عظیم اور دوسری جنگِ عظیم میں سرمائے کی ضرورت پڑی۔ برٹش حکومت نے پُرکشش شرح منافع پر عوام سے سرمایہ جمع کیا اور اِس تجربے کے بعد 1873ء میں گورنمنٹ نے سیونگ بینک ایکٹ کے ذریعے ایک ادارہ قائم کیا اور قیامِ پاکستان کے بعد بھی ادارہ قائم رہا جو اب تک فعال ہے۔

بھائی دیکھیں نا حکومت کو ہر مرتبہ بجٹ میں خسارہ ہوتا ہے اور اِس خسارے کو پورا کرنے کے لیے حکومت مختلف بینکوں، آئی ایم ایف، عالمی بینک اور نہ جانے کس کس سے قرض لیتی ہے۔ اِسی طرح کا قرض وہ عوام سے بھی لیتی ہے جس کا ذریعہ قومی بچت کی اسکیمیں ہیں۔ قومی بچت حکومت کو عوام کی بچت تک رسائی کا اہم ذریعہ فراہم کرتی ہے۔

اچھا تو یہ بھی قرض حکومت کو ہی دیتے ہیں، احتشام بھائی بولے۔

حامد میاں نے بات کاٹتے ہوئے کہا بھائی عمران اور ریاض کے لیے بھی تو چائے منگوالو۔

احتشام بھائی بولے چلو ہم بھی ایک ایک اور چائے پی لیں کہ اِس مرتبہ کراچی میں سردی کچھ پہلے ہی آگئی ہے۔

تو عمران بھائی آپ کیا کہہ رہے تھے، احتشام بھائی نے گفتگو کا رُخ ایک مرتبہ پھر عمران صاحب کی طرف موڑ دیا۔

قومی بچت کا ادارہ عام افراد کے علاوہ بوڑھے اور پینشنرز کو سب سے زیادہ شرح منافع پر سرمایہ کاری کا موقع دیتا ہے۔ اِس حوالے سے یہ ادارہ مختلف بچت اسکیموں کو متعارف کراچکا ہے، جس میں بچت سرٹیفکیٹ اور اکاؤنٹس دونوں شامل ہیں۔ ادارہ قومی بچت میں 70 لاکھ افراد نے 3500 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔

یہ بات سن کر حامد میاں کی دلچسپی میں اضافہ ہوگیا اور اُنہوں نے کہا کہ کون کون سی اسکیمیں ہیں؟

عمران صاحب نے پھر بولنا شروع کردیا کہ پرائز بانڈ ہیں، سیونگ سرٹیفکیٹ ہیں اور سیونگ اکاونٹس ہیں۔ پرائز بانڈز، 2 سو، 750، 7500، 40 ہزار اور 40 ہزار پریمیم بانڈز جاری کیے جاتے ہیں۔

2 سو روپے کے پرائز بانڈ پر انعام 7 لاکھ 50ہزار روپے ہے جبکہ 40 ہزار روپے کے بانڈ پر انعام کی رقم 7 کروڑ 50 لاکھ روپے ہے۔ ابھی حکومت نے نیا پرائز بانڈ 40 ہزار روپے کا جمع کرایا ہے، جس پر 8 کروڑ روپے کا پہلا انعام ہے اور ہر 6 ماہ بعد منافع بھی ہے۔

ریاض بھائی جو کہ اِس دوران کسی فون کال پر مصروف ہوگئے تھے پرائز بانڈ کا سن کر اُچھل پڑے اور ایک دم فون کاٹ کر کہا، عمران بھائی حامد میاں کو پرائز بانڈ کا لالچ نہ دیں، اگر بے چارے کا کوئی بھی انعام نہ نکلا یا چھوٹا موٹا انعام نکلا تو کیا کرے گا۔ ویسے بھی یہ پرائز بانڈز تو امیروں کے کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے ہیں، جس سیاستدان بیوروکریٹ کی دولت کا حساب لیں پتہ لگے گا پرائز بانڈز سے دولت کمائی ہے۔

بھائی اگر پرائز بانڈ پر انعام نکل آئے تو اسٹیٹ بینک کے بجائے کھارادر چلے جاؤ وہاں ڈیلر بیٹھے ہیں، جو نکلے گئے انعام سے کچھ اوپر رقم دے کر وہ بانڈز خرید لیتے ہیں۔

حامد میاں بولے وہ کیوں؟ ریاض بھائی بولے بھائی یہ جو لوٹی ہوئی دولت لوگوں نے جمع کی ہوئی ہے اُس کو سفید کرنے کے لیے دکھاتے ہیں کہ 7 کروڑ روپے انعامی بانڈ میں ملے اور ایک جھٹکے میں دھن کالے سے سفید۔

عمران صاحب بولے ریاض بھائی آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں، حقیقت یہی ہے۔ اِسی لیے اب 40 ہزار والے بانڈ پر شناختی کارڈ لازمی کردیا ہے اور یہ پاکستان کا پہلا رجسٹرڈ بانڈ ہے۔

ویسے بھی اب ادارے کو جدید بنایا جارہا ہے، ابھی چند دن قبل ہی میری برانچ کمپیوٹرائزڈ ہوئی ہے اور سنا ہے کہ سمندر پار پاکستانیوں کے لیے ڈالر اور سود سے پاک بانڈز کے علاوہ دہشت گردی میں شہید ہونے والوں کے اہل خانہ کے لیے بھی خصوصی سرمایہ کار اسکیمیں لائی جارہی ہیں، جس کا اعلان آئندہ چند مہینوں میں ہوجائے گا۔ مگر میرے خیال میں حامد میاں کے لیے بہتر ہے کہ وہ قومی بچت میں بہبود سرٹیفکیٹ یا پنشنر بینیفٹ اکاؤنٹ کھول لیں۔

حامد میاں بولے اچھا اِن کے بارے میں تو کچھ بتاؤ کتنا منافع مل رہا ہے۔

’کیوں نہیں، میں آپ کو تفصیل سے بتاتا ہوں،‘ عمران نے حامی بھرلی۔

پنشنرز بینیفٹ اکاؤنٹ

یہاں صرف سرکاری، نیم سرکاری، مسلح افواج اور دیگر سرکاری اداروں سے ریٹائر افراد ہی سرمایہ کاری کرسکتے ہیں اور اُن کی مدت میچورٹی 10 سال ہے۔ اِس میں 10 ہزار روپے سے لے کر فردِ واحد 50 لاکھ روپے تک سرمایہ کاری کرسکتا ہے، جبکہ جوائنٹ کھاتے کی صورت میں 1 کروڑ روپے تک سرمایہ کاری ہوسکتی ہے۔ منافع کی ادائیگی ہر ماہ کی جاتی ہے۔ اِن بچت کھاتوں میں سرمایہ کاری پر منافع 9.36 فی صد ہے اور ایک لاکھ روپے کی سرمایہ کاری پر 780 روپے ماہانہ ادا کیے جاتے ہیں۔

بہبود سیونگ سرٹیفکیٹ

اِس میں بھی منافع 9.36 فیصد ہے۔ اِس سرٹیفکیٹ کو فی الحال روکا ہوا ہے اور دوبارہ ڈیزائن کیا جارہا ہے۔ اِس میں جو منافع دیا جارہا ہے وہ حکومت کو گراں گزر رہا ہے۔ اِس میں 60 سال کی عمر سے زیادہ کے شہری یا ریٹائرڈ افراد کو سرمایہ کاری کا حق دیا جاتا ہے۔ اِس کی بھی 10 سال کی میچورٹی ہے۔ اگر پہلے 4 سال میں رقم نکلوائی تو ایک فیصد سے لے کر 0.25 فیصد تک کٹوتی ہوسکتی ہے۔ یہ سرٹیفکیٹ ٹیکس اور زکوٰۃ کی کٹوتی سے مستثنٰی ہیں۔

حامد بھائی فی الحال تو آپ اِن دو میں سرمایہ کاری کرسکتے ہیں۔ اِس میں ماہانہ منافع بھی ہے اور سرمایہ بھی محفوظ ہے جبکہ ٹیکس کی کٹوتی بھی نہیں۔

احتشام بھائی بولے اچھا اگر موازنہ کرنا ہوکہ دیگر اسکیموں پر کیا منافع مل رہا ہے تو عمران بھائی بولے وہ زیادہ پُرکشش نہیں ہے۔

ڈیفنس سیونگ سرٹیفکیٹ

اِس سرٹیفکیٹ کی میچورٹی کا عرصہ 10 سال ہے۔ پانچ سو روپے سے لے کر 10 لاکھ روپے کے سرٹیفکیٹ دستیاب ہیں مگر سرمایہ کاری اور شہریت کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ اِس وقت شرح منافع 7.54 فیصد ہے اور ایک لاکھ روپے پر 10 سال کی میچورٹی پر سرمایہ کار کو 2 لاکھ 7ہزار روپے ملیں گے۔ اِس طرح 10 سال میں منافع ایک لاکھ سات ہزار روپے جبکہ ایک لاکھ روپے اصل زر ہے۔

فائلر کے لیے ٹیکس 10 فیصد جبکہ نان فائلرز کے لیے 17.5 فیصد ہے۔ 50 ہزار روپے سے کم سرمایہ کاری پر ٹیکس کی شرح 10 فیصد ہے جبکہ سالانہ مقرر کردہ نصاب کے مطابق زکوٰۃ وصول کی جاتی ہے۔

ریگولر انکم سرٹیفکیٹ

اِن سرٹیفکیٹ میں سرمایہ کاری کی مدت 5 سال ہے۔ 50 ہزار روپے سے 10 لاکھ روپے تک کے سرٹیفکیٹ جاری کیے جاتے ہیں۔ اِن سرٹیفکیٹس پر زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ آر آئی سی کو میچورٹی سے قبل کیش کروانے پر کٹوتی کی جاتی ہے۔ پہلے سال 2 فیصد جبکہ چوتھے سال میں 0.5 فیصد ہیں۔ اِن سرٹیفکیٹ پر سالانہ شرح منافع 6.54 فیصد ہے۔ یعنی ایک لاکھ روپے کی سرمایہ کاری پر ماہانہ 545 روپے ادا کیے جاتے ہیں۔

اسپیشل سیونگ سرٹیفکیٹ

اِس اسکیم پر ادارہ قومی بچت کی جانب سے 3 سال کی میچورٹی ہے۔ 6 ماہ سے قبل سرٹیفکیٹ کو کیش کرانے کی صورت میں کوئی منافع نہیں ملے گا۔ ایک لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کرنے پر 6 ماہ میں منافع 6 فیصد کی شرح سے 3 ہزار روپے سالانہ ادا کیے جائیں گے، جبکہ 3 سال مدت مکمل کرنے پر منافع 6.20 فیصد ہوجائے گا اور سالانہ 3100 روپے منافع ادا ہوگا۔ ٹیکس کی وہی شرائط لاگو ہیں۔

شارٹ ٹرم سیونگ سرٹیفکیٹ

یہ سرٹیفکٹ ایک سال اور اِس سے کم مُدت کی سرمایہ کاری کے لیے ہیں۔ یہ سرٹیفکیٹ 3، 6 اور 12 ماہ کی مُدت کے لیے جاری ہوتے ہیں۔ 10 ہزار روپے سے 10 لاکھ روپے مالیت کے قلیل مدتی سرٹیفکیٹ جاری ہوسکتے ہیں۔

سرمایہ کاری کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ اِس سرٹیفکیٹ پر 3 ماہ کی سرمایہ کاری پر 5.6 فیصد منافع ہے اور ایک لاکھ روپے پر 1400 روپے منافع دیا جاتا ہے۔ 6 ماہ کی مدت کے لیے منافع کی شرح 5.62 فیصد ہے اور ایک لاکھ روپے پر 2810 روپے جبکہ 12 ماہ کی مدت کے لیے منافع کی شرح 5.64 فیصد ہے اور ایک لاکھ روپے پر منافع 5640روپے ادا کیا جاتا ہے۔

سیونگ اکاؤنٹ

چھوٹی بچت کرنے والوں کے لیے یہ اکاؤنٹ جس میں 500 روپے سے لے کر زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ ہفتے میں تین مرتبہ رقم نکلوائی جاسکتی ہے۔ یہ اکاؤنٹس قومی بچت کے مراکز یا پوسٹ آفس پر کھولے جاسکتے ہیں۔ اِن بچت کھاتوں پر منافع 3.95 فیصد سالانہ کی شرح سے دیا جاتا ہے۔

اسپیشل سیونگ اکاؤنٹ

عوام میں بچت کو فروغ دینے کے لیے یہ اکاؤنٹ متعارف کرائے گئے ہیں۔ اِس میں کم از کم 500 روپے کے ڈیپازٹ پر منافع دیا جاتا ہے۔ منافع کا حساب کرتے وقت ہر 500 روپے پر منافع دیا جاتا ہے۔

سرمایہ کاری کی کوئی حد مقرر نہیں مگر منافع ہر 6 ماہ بعد ادا کیا جاتا ہے۔ 6 ماہ سے قبل رقم نکلوانے کی صورت میں کوئی منافع ادا نہیں کیا جاتا ہے۔ اِس پر بھی منافع اسپیشل سیونگ سرٹیفکیٹ کی شرح سے دیا جاتا ہے۔

احتشام بھائی بولے بینک اکاؤنٹ کی جگہ قومی بچت میں سرمایہ کاری پر کم از کم ریٹائرڈ افراد کو بہتر منافع مل رہا ہے۔ حامد میاں اب قومی بچت کے بارے میں سوچنا شروع کردوں اگر بہبود سرٹیفکیٹ یا پنشنر اکاؤنٹ کھولا تو 10 لاکھ روپے پر ماہانہ 7800 روپے مل جائیں گے جوکہ بینک سے تو بہتر ہی ہیں اور اِن پر ٹیکس کی بھی کوئی کٹوتی نہیں ہے۔

حامد میاں نے کہا ہاں بھائی سوچ تو میں بھی یہی رہا ہوں مگر گھر میں ایک مرتبہ مشورہ تو کرلوں۔

عمران صاحب بولے تو احتشام بھائی آپ ہی کچھ سرمایہ کاری کرلیں نیشنل سیونگ میں۔

احتشام بھائی نے جواب دیا کہ عمران صاحب میں نے کچھ بچت تو کی ہے مگر میں اِس کم ترین منافع پر کیا کروں گا؟ ابھی میری نوکری باقی ہے، میں تو کہیں اور سرمایہ کاری کا سوچ رہا ہوں۔

ریاض بھائی گویا ہوئے ارے بھائی کہاں۔

یار تمہارے بیٹے نے میوچل فنڈ یا اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کا کہا ہے۔ ہے تو تھوڑا رسکی مگر آزما کر تو دیکھا جاسکتا ہے۔

ریاض بھائی بولے ہاں یہ تو ہے، تو پھر نوجوان سے کہتا ہوں کہ بھائی تم احتشام بھائی کو بھی بتاؤ کہ وہ کیا کریں اور کہاں سرمایہ کاری کریں۔


نوٹ: اِس مضمون کے تمام کردار تمثیلی ہیں۔ اِس مضمون کا مقصد صرف معلومات فراہم کرنا ہے۔ قارئین کو سرمایہ کاری یا مالیاتی فیصلے لینے سے پہلے خود سے احتیاطاً ریسرچ کرلینی چاہیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

Hassan Jawwad Nov 22, 2017 11:09pm
ایک اچھی تحریر،،،،ملک میں موجود معاشی سسٹم کو سمجھنے کیساتھ بچت کیلئے اختیار کیئے جانے والے طریقوں میں معاون و مددگار
امیر جعفری Nov 23, 2017 08:01am
کالم پڑھ کر خوشی ہوئی، عام فہم شخص کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ حقیقت بڑی کڑوی ہے ۔ حکومت کے ان سیونگ سرٹیفیکیٹس کا منافع انتہائی کم ہے ہر ایک لاکھ روپے پر۔ اس سے بہتر ہے بندہ اپنا کاروبار کر لے ۔ آج نہیں تو کل بہتر مستقبل ہو گا۔
بلال چنگیزی Nov 23, 2017 11:13am
راجو بھائی کی فراہم کردہ معلومات بہت اہم ہیں۔ سرمایہ کاری کے اس جال میں بہت سارے لوگ دلچسپی ظاہر نہیں کرتے ۔ جیسا کہ مذہبی رجحان رکھنے والے احباب کی ایک بہت بڑی آبادی سرے سے اس کے قریب بھی نہیں آتی جس کی اصل وجہ 'سود' ہے اگر سرکار اپنےکالے کرتوتوں سے باز آکر اور دلجمعی سے دن رات ایک کر کے خدمت کو اپنا شعار بناتے تو شائد آج ہمارے ملک کی تقدیر ہی بدل چکی ہوتی۔ مگر ان کودولت پیاری ہے جو سانس رکنے کے بعد پھر نصیب نہ ہو سکے گا۔ یہی مغلیہ خاندانوں کے ساتھ ہوا کہ پیسہ تو بہت تھا مگر اقدار ختم ہو چکے تھے اورآج تاریخ گواہ ہے کہ ان کی قبریں بھی حسرت و یاس سے اپنے ہاتھوں اس منزل تک پہنچنے کو کوستے ہوں گے۔ تو بھائی میرے اس ملک میں پیسہ بہت ہے مگر وہ پڑے کا پڑا رہ جاتا ہے کاش کہ وہ لوگوں کی خدمت لگ پاتا۔ راجہ کامران سے معذرت کہ ان کو راجو کہ کر پکارا۔