اسلام و علیکم، میرا نام ریحانہ ہے اور میں ان چند خواتین میں سے ایک ہوں یا پھر شاید اکیلی وہ خاتون ہوں جسے آپ لاہور کی سڑکوں پر رکشہ چلاتے دیکھ سکتے ہیں۔

میں لاہور میں ہی پیدا ہوئی اور یہیں پلی بڑھی، میرا گھر پڑوسی ملک کے شہر فتح گڑھ میں ہے، میری دو بڑی بہنیں اور ایک چھوٹا بھائی ہے، میرے تین بچے بھی ہیں جن میں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، میری بیٹیوں کی عمر 7 اور 12 سال ہے جو اس وقت تعلیم حاصل کررہی ہیں، میرے 17 سالہ بیٹے نے چھٹی جماعت کے بعد اسکول کی تعلیم چھوڑ دی، میں اپنے گھر کی واحد کمانے والی ہوں، کیوں کہ میرے شوہر نے تین سال قبل ہمیں چھوڑ دیا تھا۔

بچپن میں، میں ہمیشہ سے لڑکا بننا چاہتی تھی، میں ہر وہ کھیل کھیلتی جو لڑکے کھیلا کرتے تھے، کنچوں سے کھیلنا اور پتنگ اڑانا یہ سب ان میں شامل ہیں، اپنے والدین کے زور دینے کے باوجود مجھے اسکول جانے کا شوق نہیں تھا، لیکن جیسے میں بڑی ہوئی میرے والدین نے بتایا کہ ایک دن میری شادی ہونی ہے، اور پھر انہوں نے میری شادی کردی، میں نے اپنے خاندان کو جوڑ کر رکھنے کی بہت کوشش کی، لیکن میرے شوہر نے مجھے پھر بھی چھوڑ دیا۔

جب وہ مجھے چھوڑ کر گئے، تو میں یہی سوچتی تھی کہ اپنے تینوں بچوں کی تربیت کیسے کروں گی، ان کو کیسے کھلاؤں گی، اسکول کیسے بھیجوں گی، میں نے کام کی تلاش شروع کردی، میں کسی کے گھر میں کام نہیں کرسکتی، کیوں کہ ایک حادثے میں میری ٹانگ فریکچر ہوگئی تھی، جب چھوٹی تھی تو سائیکل چلانی آتی تھی، اور اب میری بیٹے نے مجھے موٹر سائیکل چلانا سکھائی، تاکہ میں اپنی بیٹیوں کو اسکول لے جا سکوں، وہاں مجھے بطور ملازمہ نوکری ملی، فریکچر ہونے کی وجہ سے میں نے بائیک پر دو ویلز اور لگوا لیے تھے، اسکول میں ٹیچرز نے مجھے بےحد سپورٹ کیا، لیکن مجھے تنخواہ صرف 6 ہزار روپے ملتی، اور کام ڈبل کرواتے، اس لیے میں نے وہ نوکری چھوڑ دی۔

مزید پڑھیں: پاکستانی لڑکی کا کریم بائیک کا منفرد سفر

نوکری چھوڑنے کے بعد مجھے خودکشی کرنے تک کا خیال آیا، لیکن پھر میں نے رکشہ خریدنے کا فیصلہ کیا اور رواں سال قسطوں پر رکشہ خرید لیا۔

بہت سے لوگوں نے میری مالی مدد کی، میرے پاس کچھ اپنے جمع کیے ہوئے پیسے بھی تھے، شوروم پر موجود لوگ بھی کافی مددگار ثابت ہوئے، میں نے انہیں بتادیا تھا کہ میرے شوہر نے مجھے چھوڑ دیا ہے اور میں اپنے بچوں کے لیے کام کرنا چاہتی ہوں، انہوں نے مجھے حوصلہ دیا، اور میری قسطوں میں بھی رعایت کی، خدا ان سب پر رحمت نازل کرے جنہوں نے میرا اتنا خیال کیا۔

اتنے عرصے موٹر سائیکل چلانے کے بعد مجھے رکشہ چلانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی، میرے خیال سے ان دونوں کو چلانے کا طریقہ ایک جیسا تھا، میں شوروم سے گھر اس رکشے کو خود لائی تھی۔

شروعات میں، میں اسکول کے بچوں کو پک ڈروپ دیتی، اور لڑکیوں کو ٹیوشن لے کر جاتی تھی، سڑکوں سے میں نے بہت کم سواری لی، میں صرف راہ چلتی خواتین کو سوار کرتی، لیکن باقی رکشہ ڈرایئورز کی طرح میں نے سڑکوں پر سواریوں کا انتظار نہیں کیا، میں مردوں کے درمیان انتظار نہیں کرنا چاہتی تھی، وہ ہر طرح کے کمنٹس کرتے، اس لیے میری کمائی کا اہم ذریعہ اسکول کے بچے اور ٹیچرز کی سواریاں رہیں۔

لیکن ایسا زیادہ عرصے تک نہیں رہا، کیوں کہ بہت سے بچوں نے اسکول تبدیل کرلیے، اور مجھے اپنے رکشے کی قسطوں کی پریشانی شروع ہوگئی، پیٹرول پم پر پیڑول بھرواتے ہوئے میں وہاں بھی گزارش کرتی کے مجھے اسکول کے بچوں کی سواری دلانے میں مدد کریں لیکن کسی کو اس کا اندازہ نہیں تھا، میں کافی پریشان ہوگئی اور میرے ذہن میں دوبارہ خودکشی کرنے کا خیال بھی آیا۔

لیکن پیٹرول پم پر موجود ایک شخص نے مجھے کریم کا حصہ بننے کا مشورہ دیا، اور انہوں نے مجھے اپنے دوست سے بھی ملایا جس کا تعلق اس کمپنی سے تھا، وہ مجھے دھرم پورہ میں موجود کریم کے دفتر لے کر گئے جہاں میرا چھوٹا سا انٹرویو ہوا، انہوں نے مجھ سے چند تفصیلات مانگی اور مجھے تھوڑا بہت ٹرین کیا، اور اس طرح ایک ماہ قبل کریم کے ساتھ میرے سفر کا آغاز ہوا۔

دھرم پورہ میں سکھائی جانے والی چیزیں مجھے بالکل سمجھ نہیں آئی کیوں کہ میں پڑھی لکھی نہیں ہوں، میں موبائل فون یا انٹرنیٹ بھی استعمال نہیں کرسکتی تھی، میں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ وہ میرے ساتھ ہر رائڈ پر موجود رہا کرے، اس لیے اب وہ موبائل فون اور نقشے دیکھتا ہے۔

ویڈیو دیکھیں: پاکستان کی پہلی خاتون فائر فائٹر عزم و ہمت کی مثال

میرے دن کا آغاز بیٹیوں کو اسکول چھوڑنے سے ہوتا ہے، جس کے بعد میں دن میں رکشہ چلانا شروع کرتی، مجھے 6 گھنٹوں میں 6 سواریاں مکمل کرنی ہوتی تھیں، لیکن بعدازاں کریم نے مجھ سے کہا کہ میں 5 گھنٹوں میں کم از کم 4 سواریاں مکمل کروں، میں اس سے زیادہ وقت باہر نہیں گزار سکتی کیوں کہ مجھے اپنے بچوں کو بھی وقت دینا پڑتا ہے، میرے علاوہ کوئی ان کا خیال رکھنے والا نہیں ہے۔

جب وہ گھر آتے ہیں میں ان کو کھانا کھلا کر قرآن پڑھنے اور پھر ٹیوشن کے لیے بھیج دیتی ہوں، جب وہ ٹیوشن کو جاتے تو میں رکشہ نکالتی ہوں، میرا ماننا ہے کہ اگر ہم کم پیسے کمانے سے آغاز کریں، تو ہمیں آگے بہت کمانے کو ملتے ہیں، لیکن اگر ہم اور پیسے کمانے کے پیچھے بھاگتے ہیں تو ہم وہ تھوڑا بہت بھی کھو دیتے ہیں جو ہمارے پاس ہوتا ہے، میں اپنے اس وقت سے مطمئن ہوں جو میں رکشہ چلانے میں گزارتی ہوں۔

میں نے اپنے بیٹے کو بھی موٹر سائیکل رکشہ چلانے پر لگادیا ہے تاکہ وہ اسکول چھوڑنے کے بعد غلط عادات میں مبتلا نہ ہو، جب میں رکشہ نہیں چلاتی تو وہ گھر چلانے میں میری مدد کرتا ہے۔

میں زیادہ تر خواتین کی سواریاں لیتی ہوں، اور وہ یہ دیکھ کر کے میں اپنے بچوں کے لیے کیا کررہی ہوں مجھے بےحد سپورٹ کرتی ہیں۔

کبھی کبھار سواریوں کے دوران نقشے اتنے پریشان کن ہوتے ہیں کہ جب ہم اپنی منزل پر پہنچتے، وہاں گاہک موجود نہیں ہوتا، اور وہ ہمیں فون بھی کرتے کہ ہم کہاں پر ہیں، اس لیے ہمیں اندازہ نہیں ہو پاتا ہے ہم صحیح جگہ موجود ہیں بھی یا نہیں، کچھ رائڈ بھی منسوخ کردیتے ہیں، مجھے بہت سی ایسی خواتین بھی سواریوں کے دوران ملی جو وکیل تھیں، انہوں نے مجھے اپنا کارڈ دیا اور کہا کہ کبھی بھی مشکل پڑے تو میں ان سے رابطہ کروں، وہ چند سواریاں جن میں مرد موجود تھے وہ بھی میرے ساتھ کافی اچھے رہے اور انہوں نے مجھے سپورٹ کیا، اب تک مجھے کسی کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔

میں زیادہ تر اپنے گھر کے قریب کی سواریاں لیتی ہوں، کیوں کہ اگر میں دور جاؤں اور گاہک رائڈ منسوخ کردے تو مجھے پریشانی ہوتی ہے، اس لیے میں اپنے گھر کے قریب رہنا ٹھیک سمجھتی ہوں، اگر میں کبھی دور کسی علاقے میں جاتی اور راستہ بھٹک جاتی ہوں تو دوسرے رکشہ ڈرائیورز مجھے اچھے سے راستہ سمجھاتے ہیں، اگر میرا رکشہ راستے میں خراب ہوجاتا یا ٹائر کا کوئی مسئلہ ہوتا تو وہ اسے دھکہ لگانے میں بھی میری مدد کرتے ہیں، سب ہی نے میرا بہت ساتھ دیا ہے۔

پہلے میں بس اتنا کما لیتی تھی کہ اپنے بچوں کو کھانا کھلا سکوں، گھر کا کرایہ دے سکوں اور رکشے کی قسطیں اتار سکوں، لیکن اب مجھے لگتا ہے کہ میں پیسے جمع بھی کرسکتی ہوں۔

جب میں نے فروری میں خود رکشہ چلانا شروع کیا، تب میری بہنوں کے ساتھ ساتھ بہت سے لوگوں نے مجھے کہا کہ مجھے بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور مسافر مجھے پریشان بھی کرسکتے ہیں۔

لیکن میں نے ان سے کہا کہ خدا میری مدد کرے گا، میں نے کہا اگر کسی نے مجھے پریشان کیا، پھر وہ مجھ سے باتیں بھی سُنیں گے، میں نے اس دوران اپنے کپڑوں کا انداز بھی ایسا ہی رکھا کہ کوئی مجھے پریشان نہ کرسکے، مجھے خود مرد بننا پڑا، جب میرے شوہر نے مجھے چھوڑا تھا، تب میں اپنے بچوں کا باپ اور ماں دونوں بنی، میرے بچوں نے بھی میرا ساتھ دیا اور وہ کہتے تھے کہ انہیں والد کی ضرورت نہیں، میں ان کے لیے کافی ہوں۔

میں چاہتی ہوں میرے بچے اچھے انسان بنیں، وہ بڑے ہوکر کیا بننا چاہتے ہیں یہ ان کی مرضی ہے، میرا بیٹا کہتا ہے کہ وہ کام کرے گا کیوں کہ وہ چاہتا ہے میں گھر میں آرام کروں، لیکن ابھی وہ اتنا سمجھدار نہیں ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستانی خواتین کی موجودہ نسل تبدیلی لائے گی

میری خواہش ہے کہ میری بیٹیاں جتنا چاہے اتنا پڑھ سکیں، جب وہ کہتی ہیں کہ انہیں پڑھنے کا شوق نہیں تو میں انہیں اپنی مثال دیتی ہوں، میں انہیں بتاتی ہوں کہ پھر مرد ان کے ساتھ اس طرح کا سلوک کریں گے اس لیے انہیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سیکھنا چاہیے۔ کیوں کہ ہمارا تعلق پٹھان گھرانے سے ہے، میرے خاندان کی خواتین پردہ کرتی ہیں، وہ بالکل باہر نہیں جاتی، وہ بائیک تک نہیں چلاتی، لیکن میں ان میں ذرا باغی ہوں۔

جب میں نے موٹرسائیکل چلانا شروع کی، میں نے اور بہت سی خواتین کو بھی ایسا کرتے دیکھا، جو خواتین گاڑیاں چلاتی تھیں انہوں نے میری تعریف کی، بہت سی خواتین نے مجھ سے یہ بھی کہا کہ میں انہیں رکشہ چلانا سکھاؤں، لیکن میں ان سے کہتی ہوں کہ میں رکشہ چلانا صرف تب سکاؤں گی جب وہ اس کام کو سنجیدگی سے لیں اور ایسا کرنا نہ چھوڑیں۔

میں اپنے آس پاس موجود خواتین کو یہی کہتی ہوں کہ ہمت نہ ہاریں اور اپنے حوصلے بلند رکھیں، میں انہیں بتانا چاہتی ہوں کہ اپنے لیے کمائیں، اپنے بچوں کے لیے کمائیں، بہادر بنیں، ہمت رکھیں، کسی اور کی مدد کی منتظر نہ رہیں، سب سے بہترین کام اپنی مدد کرنا ہی ہے، اس سے آپ کو آزاد ہونے کا احساس ملتا ہے۔


یہ کہانی شہریار رضوان کو سنائی گئی، جس کی روانی برقرار رکھنے کے لیے انتہائی معمولی ترمیم کی گئی۔

تبصرے (2) بند ہیں

Aleem Nov 22, 2017 06:32pm
Women like you are the reason I still have hope in Pakistan
زاہدرضا Nov 23, 2017 09:02am
نام نہاد پاکستانی سیاستدانوں نے جب قومی خزانوں سے اربوں ڈالرز لوٹنے ہیں تو قوم کا یہی حال ہوگا.