قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے اسلام آباد کی احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف دائر ریفرنسز کو یکجا کرنے سے متعلق درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔

نواز شریف کی جانب سے ریفرنسز کو یکجا کرنے کی درخواستوں پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ نے سماعت کی، جس میں جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی شامل تھے۔

نواز شریف کی جانب سے دائر درخواستوں میں پہلے تین اور بعد ازاں دو ریفرنسز کو یکجا کرنے کی استدعا کی گئی تھی، تاہم 23 نومبر کو ہونے والی سماعت میں عدالت عالیہ فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ شارٹ آرڈر نہیں دے رہے تفصیلی فیصلہ دیں گے۔

اس سے قبل ڈپٹی پروسیکیورٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی نے عدالت کو بتایا تھا کہ تینوں ریفرنسز میں گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور نواز شریف کی جانب سے ریفرنسز یکجا کرنے کی درخواست ہی اب غیر موثر ہو چکی۔

مزید پڑھیں: شریف خاندان کی تینوں ریفرنسز یکجا کرنے کی اپیل بھی مسترد

جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ پھر تو ہمیں ٹرائل کورٹ کو کارروائی سے روک دینا چاہیے۔

اس موقع پر نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ ہم پہلے ہی کہہ رہے تھے کہ اس درخواست پر فیصلے تک ٹرائل کورٹ کو کسی بھی قسم کی کارروائی سے روکا جائے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے نیب کے ڈپٹی پروسیکیورٹر جنرل سے استفسار کیا کہ آپ نے ہر الزام پر الگ ریفرنس فائل کرنے کا آپشن کیوں استعمال نہیں کیا؟

جس پر سردار مظفر عباسی نے کہا کہ الزامات میں جائیداد بنانے کے ادوار اور جگہ میں فرق ہے جبکہ حسن اور حسین نواز کے اپنے ذرائع آمدن نہیں، یہی ان کی پریشانی ہے، جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ یہاں درخواست گزار کی بات ہو رہی ہے، شریک ملزمان کی نہیں۔

نیب کے نمائندے نے عدالت عالیہ کو بتایا کہ ریفرنس تفصیلی دستاویز نہیں، جے آئی ٹی رپورٹ سمیت دیگر دستاویزات کو بھی دیکھنا ہے، جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ آپ تینوں ریفرنسز میں الزامات کی فرد جرم پڑھ کر سنائیں۔

نیب ڈپٹی پروسیکیوٹر نے کہا کہ ریفرنس یکجا کرنے سے پراسیکیوشن اور ملزم دونوں کو مشکل ہو گی، ’جوائنٹ ٹرائل سے ملزم کے لیے آسانی نہیں بلکہ مشکل ہو گی‘۔

یہ بھی پڑھیں: ریفرنسز یکجا کرنے سے متعلق احتساب عدالت کا فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج

انہوں نے کہا کہ الگ الگ ریفرنسز کو ثابت کرنے کا بوجھ نیب پر ہے جبکہ پہلے تینوں ریفرنسز کو یکجا کرنے کا کہا گیا، اب دو کو یکجا کرنے کی بات کی جارہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ثبوت نیب نے دینے ہیں، کیس ثابت نہ کرسکے تو ملزمان بری ہو جائیں گے۔

اس سے قبل 14 نومبر کو سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے ان کے اور ان کے اہل خانہ کے خلاف دائر تینوں ریفرنسز کو یکجا کرنے سے متعلق احتساب عدالت کے فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

واضح رہے کہ اس سے قبل 2 نومبر کو بھی نواز شریف کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں تینوں ریفرنسز کو یکجا کرنے کی درخواست کی تھی جس میں نواز شریف نے موقف اختیار کیا تھا کہ عدالت احتساب عدالت کو، الزامات یکجا کرنے اور شریف خاندان کے خلاف تین ریفرنسز کے بجائے ایک ٹرائل کرنے کی ہدایت دے۔

مزید پڑھیں: حدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس: شریف خاندان کے ایک اور امتحان کا آغاز

ہائی کورٹ کے ڈویژنل بینچ نے نواز شریف کی درخواست پر سماعت کے دوران احتساب عدالت کا 19 اکتوبر کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے اس پر نظر ثانی کا حکم دیا تھا۔

اس کے بعد 8 نومبر کو سابق وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ کے خلاف ریفرنسز کی سماعت کا آغاز ہوا تو احتساب عدالت نے شریف خاندان کے خلاف دائر تینوں ریفرنسز کو یکجا کرنے کی ملزمان کی درخواست مسترد کردی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں