• KHI: Clear 21.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 13.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.1°C
  • KHI: Clear 21.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 13.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.1°C

اغوا کار ہمیں زندہ جلانا چاہتے تھے: پولیس حکام

شائع November 29, 2017

اسلام آباد میں فیض آباد انٹر چینج کے مقام پر مذہبی جماعتوں کے دھرنے کے دوران مبینہ طور پر اغوا کیے گئے 2 پولیس اہلکاروں کا کہنا ہے اغوا کار ان پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگانا چاہتے تھے۔

خیال رہے کہ مظاہرین نے سب انسپکٹر اسلم حیات اور سب انسپکٹر امانت علی کو فیض آباد دھرنے کے خلاف پولیس کریک ڈاؤن کے دوران راولپنڈی کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال سے اغوا کر لیا تھا بعدِ ازاں ان پر شدید تشدد کرنے کے بعد زخمی حالت میں انہیں سوہن روڈ پر جھاڑیوں میں پھینک دیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ دھرنے میں شریک مشتعل افراد جب انہیں زندہ جلانا کا ارادہ رکھتے تھے تو انہوں نے مظاہرین سے اپنی زندگی کی بھیک مانگی اور عین اسی وقت حکومت اور مظاہرین کے درمیان معاہدہ طے پاگیا جس کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا۔

سب انسپکٹر امانت علی نے بتایا کہ ’مشتعل افراد ہمیں رات گئے زندہ جلانا چاہتے تھے لیکن ہم نے اپنی زندگی کی بھیک مانگی اور انہیں یقین دلایا کہ ہم قصور وار نہیں ہیں‘۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد دھرنا: وزیر قانون زاہد حامد کا استعفیٰ منظور

امانت علی کو ڈنڈوں اور بجلی کی تاروں سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا اور وہ اس وقت ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں جنہیں جلد گھر بھیج دیا جائے گا۔

سب انسپکٹر اسلم حیات کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس کے باعث ان کے بائیں ہاتھ میں فریکچر آیا تھا تاہم انہیں ہسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا جبکہ ڈاکٹرز نے انہیں مزید ایک ماہ تک آرام کرنے کا مشورہ دیا۔

امانت علی نے مزید بتایا کہ فیض آباد میں عارضی خیموں میں سے ایک خیمے میں موجود پولیس اہلکاروں کو 10 سے زائد مشتعل افراد نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔

امانت علی کے صاحبزادے سخاوت علی نے بتایا کہ مظاہرین نے ان کے والد سے موبائل فون اور ان کی جیب میں موجود نقدی بھی چھین لی تھی جبکہ انہوں نے ان کا یونیفارم بھی پھاڑ دیا تھا۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اغوا کاروں نے اہلکاروں کی درخواست کے باوجود انہیں کھانا اور پانی فراہم نہیں کیا جبکہ انہیں حکومت اور مظاہرین کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد رہا کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد دھرنا: کب، کیا اور کیسے ہوا

راولپنڈی پولیس کے سینئر اہلکار کا کہنا ہے کہ اس واقعے کا مقدمہ نا معلوم افراد کے خلاف درج کیا جاچکا ہے تاہم حکومت اور مظاہرین کے درمیان ہونے والے معاہدے کی وجہ سے اس مقدمے کی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاسکی۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ کیس اب دبا دیا گیا ہے جو پہلے سے ہی اپنی تنخواہوں، مراعات اور اپنے سینئر کے رویے کی وجہ سے مایوس پولیس اہلکاروں کو مزید مایوس کرے گا۔

ایک اور سینئر پولیس اہلکار کا کہنا ہے کہ وہ ابھی مزید کسی اہلکار کی کمشدگی کے حوالے سے تصدیق یا تردید نہیں کر سکتے تاہم پولیس اہکاروں اور ان کے ہتھیاروں اور دیگر سامان کی گنتی کے بعد ہی حتمی طور پر کچھ بتایا جائے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پولیس اہلکاروں کے گمشدہ وائر لیس سیٹ بھی تشویش کی وجہ ہیں کیونکہ کوئی بھی شخص وائر لیس سیٹ کی مدد سے پولیس اہلکاروں کے درمیان ہونے والی گفتگو کو با آسانی سن سکتا ہے جبکہ اس سے ملکی سیکیورٹی کو بھی شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔


یہ خبر 29 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025