اسلام آباد پولیس نے فیض آباد انٹرچینج پر مظاہرین کے خلاف آپریشن کے حوالے سے رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کردی جس میں پولیس اہلکاروں کی تھکاوٹ کو آپریشن کی ناکامی کا سبب قرار دیا گیا۔

اسلام آباد پولیس کے انسپیکٹر جنرل (آئی جی) خالد خٹک کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا کہ 20 دن سے جاری دھرنے کو سیکیورٹی فراہم کرتے ہوئے سیکیورٹی اہلکار تھک چکے تھے جس کے باعث فیض آباد انٹرچینج پر ہونے والے آپریشن میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

پولیس رپورٹ کے مطابق مختلف علاقوں کے سیکیورٹی اہلکار جن میں فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی)، پولیس، اور پاکستان رینجرز کی تعیناتی نے کام پر برا اثر ڈالا تھا جبکہ تعینات کیے گئے اہلکاروں کو مظاہرین کی جانب سے اپنی تقریروں کے ذریعے گمراہ بھی کیا جارہا تھا جس کی وجہ سے فورسز کے استعمال میں مشکلات پیش آئیں۔

واضح رہے کہ 23 نومبر کو گزشتہ سماعت کے دوران عدالتِ عظمیٰ نے از خود نوٹس جاری کرتے ہوئے حکام سے فیض آباد دھرنے اور ٹریفک جام کی صورتحال پر رپورٹ طلب کی تھی۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد دھرنا: کب، کیا اور کیسے ہوا

پولیس رپورٹ میں بتایا گیا کہ مظاہرین آپریشن کے لیے پہلے سے تیار تھے اور انہوں نے دھرنے کے مقام کے قریب ان تمام سیکیورٹی کیمروں کے تار کاٹ دیئے تھے جن کے ذریعے ان کی نقل و حمل پر نظر رکھی جارہی تھی۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ان کے پاس پستول، پتھر، کلہاڑی، لوہے کے راڈ، آنسو گیس اور اس بچنے کے لیے ماسک بھی موجود تھے جبکہ مذہبی طور پر ان مظاہرین کے جذبات کو ابھارتے ہوئے بہت حوصلہ افزائی کی گئی تھی۔

رپورٹ میں آپریشن کے دوران الیکٹرانک میڈیا کی جانب سے کی گئی لائیو کوریج کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا کہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے قریبی علاقوں سے مزید مظاہرین جمع ہوگئے تھے۔

آپریشن کے دوران 173 حکام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران زخمی ہوئے تھے تاہم کسی اہلکار کو بندوق نہ دیئے جانے کی وجہ سے کسی بھی حکومتی ملازم یا عام شہری ہلاکت نہیں ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد دھرنا: کیا ذرائع ابلاغ کو بند کرنا واحد حل تھا؟

اسلام آباد پولیس کا اپنی رپورٹ میں کہنا ہے کہ مظاہرین کھلے علاقے میں بیٹھے تھے جس کی وجہ سے ان پر آنسو گیس اثر نہیں کر سکی۔

سیکیورٹی پلان کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا کہ 5 ہزار 5 سو 8 اہلکاروں کو فسادات سے بچنے کے لیے تمام سامان فراہم کرکے فیض آباد انٹر چینج پر مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ 25 نومبر کو ہونے والے آپریشن کے آغاز میں آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کیا گیا لیکن مظاہرین کی جانب سے مزاحمت کی گئی اور انہوں نے پولیس پر ڈنڈوں، کلہاڑیوں اور پتھروں سے جوابی وار کیا جبکہ پولیس فورس پر آنسو گیس کے شیل بھی پھینکے گئے۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سیکیورٹی اہلکاروں نے 4 گھنٹوں کی محنت کے بعد 80 فیصد علاقہ خالی کرالیا تھا لیکن اسی دوران راولپنڈی کے قریبی علاقوں سے تحریک لبیک پاکستان کے مزید کارکنان بھی پہنچ گئے تھے جس کے بعد انہوں نے فورسز پر حملے شروع کیے جس کے نتیجے میں متعدد پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکار زخمی ہوئے تھے جنہیں فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا۔

دھرنے کی وجہ سے قوم کو ہونے والے نقصان کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا کہ مظاہرین نے عوام اور پولیس کی کئی گاڑیوں کو نظر آتش بھی کیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ پولیس نے 8 نومبر سے 25 نومبر تک 418 مظاہرین کے خلاف 27 کیسز کو درج کیا جنہیں تحقیقات کے بعد جوڈیشل حراست میں بھیج دیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد دھرنا: پولیس کاآپریشن معطل، 150 افراد گرفتار

خیال رہے کہ تحریک لبیک کی قیادت نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے ڈیموکریسی پارک میں منتقل ہونے کا وعدہ کیا تھا جس کے بعد انہیں منتشر ہوجانا تھا لیکن وہ اپنے وعدے سے مکر گئے اور فیض آباد جنکشن پر دھرنے کا آغاز کرتے ہوئے عام عوام کے آنے اور جانے والے راستوں کو بند کردیا تھا۔

تاہم صورت حال کو دیکھتے ہوئے وفاقی حکومت اور ضلعی انتظامیہ نے تحریک لبیک کی قیادت کے ساتھ مذاکرات کیے تاکہ ان کا دھرنا ختم کیا جاسکے۔

رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات کے مطابق اسلام آباد پولیس اورضلعی انتظامیہ نے مظاہرین کو ڈیموکریسی پارک منتقل کرنے کے لیے تمام تر وسائل کو بروئے کار لائے گئے تھے جبکہ دیگر صوبوں اور ریجرز اہلکاروں کو بھی طلب کرکے مخصوص مقامات پر تعینات کیا گیا۔

پولیس نے دعویٰ کیا کہ سیکیورٹی اداروں کی جانب سے آپریشن کو پورے منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا تھا تاہم مظاہرین کی جانب سے شدید مزاحمت اور تحریک کے مزید کارکنان کی اسلام آباد اور راولپنڈی کے قریبی علاقوں سے آمد کی وجہ سے اسے معطل کرنا پڑا تھا تاکہ کسی قسم کا جانی نقصان نہ ہو لیکن جب ملک بھر میں دھرنوں کے آغاز کی اطلاعات موصول ہوئیں تو آپریشن کو مکمل طور پر بند کرنا پڑا تھا۔


یہ خبر 30 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں