ہر ڈاکٹر کی پریکٹس کے دوران کچھ مریض ایسے ضرور ہوتے ہیں جو سب سے مختلف ہوتے ہیں؛ مسٹر اسٹیوینز (حقیقی نام نہیں) میرے لیے ایسے ہی ایک مریض تھے۔

وہ چھے فٹ چار انچ قد کاٹھ کے مالک اور ٹیکساس کے رہائشی تھے، جس کی وجہ سے ان کا لہجہ کافی جنوبی تھا۔ وہ ایک ریٹائرڈ فنانشل افسر، بے انتہا معلومات رکھنے والے اور مدلّل شخص تھے۔

66 سال کی عمر میں بھی انہیں سفر اور مطالعے کا شوق تھا، اور وہ ہمیشہ اپنے دلچسپ تجربات شیئر کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ انہیں سننا نہایت خوشگوار ہوتا۔

اپنی چھٹیوں سے واپس آنے کے بعد ایک دن وہ میرے کلینک میں آئے۔ انہیں سینے کے تیز درد کی شکایت تھی۔

شروع میں تو مجھے لگا کہ یہ شاید کسی پٹھے کے کھنچ جانے کی وجہ سے تھا؛ مگر ان کی سفری اور سگریٹ نوشی کی عادات کی وجہ سے میں نے انہیں سینے کے سی ٹی اسکین کے لیے بھیجا تاکہ معلوم ہوسکے کہ کہیں سینے میں خون کا لوتھڑا تو نہیں ہے۔

دو گھنٹے بعد مجھے ریڈیولاجسٹ کی جانب سے نتائج کے بارے میں کال آئی۔ یہ لوتھڑا نہیں بلکہ دو سینٹی میٹر کی رسولی تھی جس کے بارے میں شک تھا کہ یہ پھیپھڑوں کا سرطان ہے۔ یہ کافی غیر متوقع صورتحال تھی اور بے چارے اسٹیوینز گہرے صدمے میں تھے۔

پڑھیے: تمباکو نوشی کے خطرات سے بچنا چاہتے ہیں؟

پھیپھڑوں کی بائیوپسی کروانے پر تصدیق ہوگئی کہ یہ پھیپھڑوں کا سرطان ہی تھا۔ مگر کچھ مزید ٹیسٹ پھر بھی کروائے تاکہ یقین کیا جا سکے کہ ان کا کینسر جسم کے دیگر حصوں میں پھیل نہ گیا ہو۔

انہیں فوراً سینے کے سرجن کی جانب بھیجا گیا جنہوں نے نہایت ماہرانہ انداز میں کینسر کو نکال باہر کیا۔ سرجری کے بعد نہ صرف اسٹیوینز کا کینسر ختم ہوگیا، بلکہ انہیں پیغام بھی مل گیا کہ انہیں اب سگریٹ نوشی چھوڑ دینی چاہیے۔

امریکا اور پاکستان کے دیگر کئی لوگوں کے برعکس اسٹیوینز خوش قسمت تھے جن کی تشخیص اور علاج وقت پر ہوگیا۔ امریکا میں جہاں سگریٹ نوشی کا تناسب پاکستان کے مقابلے میں کم ہے (16 فیصد بمقابلہ 24 فیصد)، وہاں کسی بھی کینسر کے مقابلے میں لوگ پھیپھڑوں کے سرطان کی وجہ سے زیادہ مرتے ہیں۔

جو چیز مریضوں اور ڈاکٹروں کو بے وقوف بناتی ہے، وہ یہ کہ پھیپھڑوں کے سرطان کا آغاز اور پھیلنا بہت ہی ان دیکھے انداز میں ہوتا ہے۔ جب تک علامات ظاہر ہونی شروع ہوتی ہیں، تب تک یہ جسم کے دیگر حصوں تک پھیل کر ناقابلِ علاج بن چکا ہوتا ہے۔

آخری اسٹیجز پر ہونے والا علاج نہ صرف مہنگا ہوتا ہے، بلکہ عموماً اس کے نتائج بھی خاص نہیں ہوتے۔ جن لوگوں نے اپنے رشتے داروں یا پیاروں کو اس کینسر میں مبتلا دیکھا ہے، وہ جانتے ہیں کہ مریض اپنی زندگیوں کے آخری چند ماہ کس قدر اذیت میں گزارتے ہیں۔

کینسر کی پیشگی تشخیص ان لوگوں کی اسکریننگ کے ذریعے ہو سکتی ہے جو کینسر کا شکار ہونے کا سب سے زیادہ خطرہ رکھتے ہیں۔ اسکریننگ ٹیسٹ کا مقصد بیماری کو اس کے ابتدائی مرحلے میں ہی پکڑ لینا ہوتا ہے تاکہ اسے پھیلنے کا موقع نہ ملے۔ عام طور پر بیماری کو ابتداء میں ہی پکڑ لینے سے اس پر علاج کارگر ثابت ہونے لگتا ہے۔

مگر تمام اسکریننگ ٹیسٹوں کے اپنے اپنے فوائد و نقصانات ہوتے ہیں۔ ایک مثالی اسکریننگ ٹیسٹ سستا، کم سے کم نقصان دہ، اور زیادہ سے زیادہ فائدہ مند ہونا چاہیے۔

میموگرافی (چھاتی کے سرطان کا ٹیسٹ) ایک اچھے اسکریننگ ٹیسٹ کی بہترین مثال ہے، جس نے مغربی معاشروں میں چھاتی کے سرطان کی شرح کو واضح حد تک کم کر دیا ہے۔

پڑھیے: تمباکو نوشی ترک کرنے کے حیرت انگیز اثرات

ماضی میں پھیپھڑوں کے سرطان کے لیے کوئی مؤثر اسکریننگ ٹیسٹ موجود نہیں تھا جس کی وجہ سے یہ خطرناک ترین کینسرز میں سے ایک تھا۔ اس کا پتہ لگانے کے لیے سینے کے ایکسرے اور تھوک و بلغم کا ٹیسٹ کیا جاتا تھا مگر وہ ایک اچھے اسکریننگ ٹیسٹ کے معیار پر پورا اترنے میں ناکام رہے تھے۔

سی ٹی اسکین کے بارے میں ہمیشہ سے معلوم تھا کہ یہ پھیپھڑوں کے سرطان کو شروعات میں ہی پکڑ لیتے ہیں، مگر خطرناک شعاعوں کی زیادتی کی وجہ سے اس اسکین کو اسکریننگ میں استعمال نہیں کیا جاتا تھا۔

اسی چیز کو مدِنظر رکھتے ہوئے طبی سائنسدانوں نے ایک تحقیق شروع کی تاکہ کم سے کم ممکن شعاعوں کے ذریعے سی ٹی اسکین کیا جا سکے۔

ایک اہم ترین تحقیق میں سائنسدانوں نے لو ڈوز سی ٹی اسکین (LDCT) کا استعمال کر کے پھیپھڑوں کے سرطان کی تشخیص کی۔ اس کے فوائد و نقصانات کے ایک تفصیلی جائزے کے بعد معلوم ہوا کہ ایل ڈی سی ٹی پھیپھڑوں کے سرطان کے لیے ایک مؤثر اسکریننگ ٹیسٹ ہے کیوں کہ یہ تابکاری کے نقصانات کو کم کر دیتا ہے۔

فی الوقت یہی ٹیسٹ دنیا کی بڑی طبی تنظیموں مثلاً یونائیٹس اسٹیٹس پریوینٹیو سروسز ٹاسک فورس، یورپیئن ریسپائریٹری سوسائٹی، یورپیئن سوسائٹی آف ریڈیولاجی اور یورپیئن سوسائٹی آف میڈیکل آنکولوجی کی جانب سے تجویز کیا جاتا ہے۔

پھیپھڑوں کا سرطان ایک چھوٹی سی گولی کی طرح شروع ہوتا ہے جس کی جسامت اگلے چند ماہ میں بڑھنے لگتی ہے۔ ابتدائی مراحل میں تو اس کا علاج سرجری کے ذریعے کیا جا سکتا ہے، جو کہ عام طور پر اس مہلک بیماری کا مکمل علاج ثابت ہوتی ہے۔

لیکن اگر اس کا علاج نہ کیا جائے یا تشخیص نہ کی جا سکے تو یہ کینسر بڑھ کر بڑا ہوجاتا ہے اور جسم کے دیگر حصوں میں پھیل جاتا ہے۔ اس مرحلے پر پہنچ جائیں تو مکمل علاج ممکن نہیں ہوتا، اور علاج کی توجہ صرف کیموتھیراپی اور ریڈی ایشن کے ذریعے کینسر پر قابو پانے پر مرکوز ہوتی ہے۔

جن لوگوں میں پھیپھڑوں کے سرطان کا خطرہ زیادہ موجود ہو، ان پر سینے کے ایل ڈی سی ٹی کے استعمال سے کینسر کو ابتدا میں پکڑا جا سکتا ہے، جس سے پھیپھڑوں کے سرطان سے اموات 20 فیصد تک کم ہو سکتی ہیں۔

مگر ایل ڈی سی ٹی صرف ان لوگوں کو کروانا چاہیے جو پھیپھڑوں کے سرطان کے سب سے زیادہ خطرے میں ہیں۔ اگر آپ بے تحاشہ سگریٹ نوشی کرتے رہے ہیں اور 55 سے 75 سال کے ہیں تو آپ کو اپنے ڈاکٹر سے اسکریننگ ٹیسٹ کے بارے میں ضرور بات کرنی چاہیے۔

لیکن اگر آپ نے 15 سال سے بھی زیادہ عرصے سے سگریٹ نوشی چھوڑ رکھی ہے تو کینسر کا خطرہ واضح حد تک کم ہوجاتا ہے اور اس لیے یہ ٹیسٹ آپ کے لیے فائدے مند نہ ہو۔

جانیے: پھیپڑوں کے سرطان کی تشخیص میں پیش رفت

پھیپھڑوں کے اسکریننگ ٹیسٹ گذشتہ کئی سالوں سے امریکا سمیت دنیا کے کئی ممالک میں کامیابی سے اپنائے جا چکے ہیں۔ مگر اپنے حالیہ دورہءِ پاکستان میں میں نے جانا کہ پاکستان میں ڈاکٹروں اور عوام میں اس اہم اسکریننگ ٹیسٹ کے بارے میں آگاہی بہت کم ہے۔

یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ ٹیسٹ عام سی ٹی اسکین مشین سے کیا جاتا ہے اور اس کے لیے کسی نئی مشین کی ضرورت نہیں ہوتی۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ اس میں شعاعوں کی تیزی عام سی ٹی اسکین سے 90 فیصد کم ہوتی ہے۔

کینسر کی روک تھام کے پروگرام چلانے والے بڑے ہسپتال بشمول شوکت خانم ہسپتال میں اس ٹیسٹ کے ذریعے کینسر کی اسکریننگ کی جا رہی ہے، مگر اسے وسیع پیمانے پر، بالخصوص سرکاری ہسپتالوں میں، نافذ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہوئے کینسر کی تشخیص ابتداء میں ہی کی جا سکے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سگریٹ نوشی چھوڑنا پھیپھڑوں کے سرطان سے بچنے کا سب سے اہم ترین طریقہ ہے اور اس کی اہمیت کو کبھی بھی کم نہیں سمجھنا چاہیے۔

مگر سگریٹ نوشی چھوڑنے کے ساتھ ساتھ ایل ڈی سی ٹی ہمارے معاشرے سے اس موذی مرض کا بوجھ کافی حد تک کم کر سکتا ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

abdul Hafeez Dec 04, 2017 01:55pm
ڈاکٹر سرمد صاحب، آپ کا بہت شکریہ۔ اُمید ہے آپ صحت سے متعلق ایسے معلوماتی مضامین لکھتے رہیں گے۔