کراچی: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے سندھ میں نکاسی آب اور پینے کے پانی کی فراہمی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ مضر صحت پانی پینے کے باعث سندھ کے عوام، کینسر اور ہیپاٹائیٹس سمیت دیگر امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔

سندھ میں نکاسی آب اور پینے کے پانی کی فراہمی سے متعلق کیس کی سماعت سپریم کورٹ کراچی کی رجسٹری میں ہوئی، جس میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے سندھ بھر کے شہریوں کو آلودہ پانی کی فراہمی پر ایک مرتبہ پھر برہمی کا اظہار کیا۔

نکاسی آب و پانی کی فراہمی کی سماعت کے دوران سیکریٹری صحت، سیکریٹری داخلہ, چیف سیکریٹری اور مینیجنگ ڈائریکٹر (ایم ڈی) واٹر بورڈ سمیت دیگر اعلیٰ حکام بھی پیش ہوئے۔

دوران سماعت اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے ہوا اور پانی جیسی 2 عظیم نعمتوں سے نوازا ہے، اور ہم سب کا فرض ہے کہ خدا کی عطا کی گئی نعمتوں کی حفاظت کریں۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے سرکاری عہدیداروں کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کی سنوائی کو عام نہ لیا جائے، یہ معاملہ انتہائی اہم ہے، جب کہ پانی کو صاف بنانے کا کام عدالتوں کا نہیں بلکہ ریاست کی حکومت کا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ کے شہری مضر صحت پانی پینے پر مجبور

چیف جسٹس ثاقت نثار کا کہنا تھا کہ وہ یہاں یہ جاننے آئے ہیں کہ جس کام کے لے پیسے لیے گئے، وہ پیسے اس کام میں کیوں نہیں لگے، اور وہ پیسے آخر گئے کہاں؟

چیف جسٹس آف پاکستان نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو مخاطب ہوتے کہا کہ ’بہت ڈرامے ہوگئے، اب سخت ایکشن لیں گے، تعلیم اور صحت پر کام نہیں کیا جا رہا، بہت سی شکایتیں آ رہی ہیں‘۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ اب سپریم کورٹ ہرمعاملے پر نظر رکھے گی، ہم نہیں جانتے کون کس وقت انچارج تھا، ہم اس سے پوچھیں گے، جو مجموعی طورپر انچارج ہے۔

دوران سماعت درخواست گزارشہاب اوستو نے عدالت کو ویڈیو دیکھائی کہ سندھ بھر میں لوگ کس طرح کا آلودہ پانی پی رہے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پیمرا کو چاہیے کہ وہ اس ویڈیو کو دکھائے، تاکہ عوام کو پتہ چلے کہ شہری کس قدر مضر صحت پانی پی رہے ہیں۔

شہاب اوستو نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی کمیشن نے سندھ بھر کا دورہ کیا، صوبے بھر میں کہیں بھی صاف پانی دستیاب نہیں، کراچی سے لے کر کشمور تک آلودہ پانی فراہم کیا جارہا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ صوبائی حکمران جماعت کے گڑھ سمجھے جانے والے شہر ’لاڑکانہ‘ کے ہی 88 فیصد لوگ آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں، جب کہ مجموعی طور پر مضر صحت پانی پینے سے 80 لاکھ شہری ہیپاٹائیٹس میں مبتلا ہوچکےہیں۔

چیف جسٹس نے شہاب اوستو کے دلائل پر کہا کہ منتخب نمائندے عوام کے لیے کیا کر رہے ہیں، سمجھ سے بالاتر ہے، ہم کسی کے لیے ضد رکھنے والے نہیں، ہم نہیں چاہتے کہ فیصلہ دیں تو کوئی کہتا پھرے کہ فیصلہ کیوں دیا،ہم ٹھوک بجا کر، سوچ سمجھ کراور سب کو سن کر فیصلہ دیں گے۔

مزید پڑھیں: کراچی کا 99 فیصد پانی مضر صحت

جسٹس ثاقب ناثر نے حکومتی عہدیداروں اور ایڈووکیٹ جنرل کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ وہ اس معاملے کے لیے ہر ہفتے بھی سماعت کر سکتے ہیں، کیوں کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کو صاف پانی میسر آنا چاہیے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت کو پتہ ہے کہ کون کیا کام کر رہا ہے، کون نہیں، سب بہانے بازی اپنے پاس رکھیں، چیف سیکریٹری کچھ نہیں کرسکتے تو وزیراعلی کو بلا لیتے ہیں اور وہ اپنے کرتا دھرتا کے ساتھ عدالت آئیں۔

دوران سماعت شہاب اوستو کی جانب سے مصطفیٰ کمال کا نام لینے میں تذبذب کا شکار ہونے پرعدالت نے استفسار کیا کہ آپ سابق ناظم کراچی کا نام لینے سے کیوں گھبرارہے ہیں؟ جس پرشہاب اوستو نے کہا کہ وہ کسی خوف کا شکار نہیں، سابق ناظم مصطفیٰ کمال نے محمود آباد ٹریٹمنٹ پلانٹ کی زمین غیرقانونی الاٹ کی۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ مصلحت، مفاد اور خوف جج کے لیے بھی زہر قاتل ہے۔

آخر میں عدالت نے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اورسابق ناظم کراچی مصطفیٰ کمال کو 6 دسمبر تک طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ سندھ میں نکاسی آب سے متعلق سماعت گزشتہ برس سے جاری ہے، عدالت نے درخواست گزار شہاب اوستو کی درخواست پر ’جڈیشل واٹر کمیشن‘ بھی تشکیل دیا تھا۔

جسٹس اقبال کلہوڑو کی سربراہی میں قائم عدالتی کمیشن نے مارچ 2017 میں سپریم کورٹ میں اپنی رپورٹ بھی جمع کرائی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ صوبہ سندھ کے شہریوں کو فراہم کیے جانے والے پینے کے پانی میں ہیپاٹائٹس بی، جگر کے سرطان، خون کی کمی اور بچوں کی نشوونما میں رکاوٹ ڈالنے والے وائرس کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 80 فیصد پاکستانی آلودہ پانی پینے پر مجبور

اس کمیشن کا مقصد سندھ میں پینے کے صاف پانی، صحت و صفائی کی صورت حال اور صحت مند ماحول کے حوالے سے انتظامیہ کی ناکامی پر کیے گئے خدشات کی تحقیقات کرنا تھا۔

اسی کمیشن نے 4 جنوری 2017 کو پاکستان کونسل آف ریسرچ اینڈ واٹر ریسورس (پی سی آر ڈبلیو آر) کو صوبے کے عوام کو فراہم کیے جانے والے پانی کی حیاتیاتی اور کیمیائی جانچ کی ہدایت کی تھی.

عدالتی کمیشن کی ہدایات کے بعد پی سی آر ڈبلیو نے تحقیقات کے بعد 4 مارچ 2017 کو اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ سندھ کے 13 اضلاع میں شہریوں کو فراہم کیے جانے والا پینے کا پانی مضر صحت ہے.

پاکستان کونسل آف ریسرچ اینڈ واٹر ریسورس (پی سی آر ڈبلیو آر) نے سکھر، لاڑکانہ، شکارپور، ٹنڈو محمد خان، بدین ، تھرپارکر، حیدرآباد اور کراچی کے 6 اضلاع، جن میں شرقی، غربی، جنوبی، وسطی، ملیر اور کورنگی شامل ہیں، سے پانی کے 300 نمونے حاصل کرکے ان کا ایک تفصیلی بیکٹیریل تجزیہ کیا تھا۔

پی سی آر ڈبلیو آر کی جانب سے تحقیقات کے بعد سندھ کے ان اضلاع میں زمین کی سطح پر اور زیر زمین موجود پانی کے بیشتر نمونوں کو انسانی استعمال کے لیے غیر محفوظ قرار دیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں