کراچی: صوبہ سندھ کے شہریوں کو فراہم کیے جانے والے پینے کے پانی میں ہیپاٹائٹس بی، جگر کے سرطان، خون کی کمی اور بچوں کی نشوونما میں رکاوٹ ڈالنے والے وائرس کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔

پانی میں خطرناک وائرس کی موجودگی کا انکشاف سپریم کورٹ کی جانب سے سندھ کے شہریوں کو فراہم کیے جانے والے پینے کے پانی اور نکاسی آب کے نظام کا جائزہ لینے کے لیے قائم کیے گئے عدالتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کیا۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی قائم تین رکنی بینچ نے سندھ کے شہریوں کو پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کی سہولیات سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

بینچ میں جسٹس قاضی فائز عسیٰ اور جسٹس فیصل عرب بھی شامل تھے، سماعت کے دوران جسٹس اقبال کلہوڑو کی سربراہی میں قائم عدالتی کمیشن نے اپنی رپورٹ پیش کی۔

ڈان نیوز کے مطابق سپریم کورٹ نے سندھ میں پانی کی فراہمی اور نکاسی سے متعلق کمیشن کی رپورٹ کے بعد قانون اور آبپاشی کے سیکریٹریوں اور کراچی واٹر بورڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر مصباح الدین کو عہدے سے ہٹاکر کیڈر افسران تعینات کرنے کا حکم دے دیا۔

کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا کہ سندھ کے شہریوں کو فراہم کیے جانے والے پانی میں ہیپاٹائٹس بی، جگر کے سرطان، خون کی کمی اور بچوں کی نشوونما میں رکاوٹ ڈالنے والے وائرس موجود ہیں، جن کی وجہ سے یہ بیماریاں سندھ بھر میں پھیل چکی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ 'یہ نہیں کہا جاسکتا کہ متعلقہ حکام پینے کے پانی میں شامل وائرس کی موجودگی کی بات سے بے خبر ہیں'۔

رپورٹ میں سندھ بھر کے نکاسی آب و پینے کا پانی فراہم کرنے والے اداروں میں بد انتظامی کی شکایات بھی کی گئی ہیں۔

ناقص آر او پلانٹس

عدالت میں سندھ بھر میں لگائے گئے 700 ریورس اوسموسس (آر او) پلانٹ کے حوالے سے بھی رپورٹ پیش کی گئی، جس میں کہا گیا کہ زیادہ تر لگائے گئے آر او پلانٹ اب بھی غیر فعال ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ: 13 اضلاع میں پانی 'انسانی استعمال کیلئے غیر محفوظ'

رپورٹ میں بتایا گیا کہ آ و پلانٹ لگانے سے قبل ہی ملی بھگت کے تحت ان کے لیے رقم جاری کی گئی، جبکہ پلانٹ کی تنصیب مکمل ہونے کے بعد انہیں چیک کیے بغیر مزید فنڈز جاری کردیئے گئے۔

رپورٹ کے مطابق آر او پلانٹس کے ساتھ پانی کے معائنے کے لیے قائم کی گئی لیبارٹریز محض دھوکا ہیں، کیونکہ ان لیبارٹریز میں کوئی بھی سہولت موجود نہیں ہے۔

کراچی کے کچرے پر اربوں روپے کے اخراجات

عدالتی کمیشن نے دارالحکومت کراچی میں بھی پانی کی فراہمی، نکاسی آب اور صفائی کی صورتحال پر اپنی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی۔

عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا کہ کراچی اور حیدرآباد میں پانی کی فراہمی کا نظام غیر مؤثر ہوچکا ہے، جب کہ ان شہروں میں فراہم کیے جانے والا پانی بھی غیر معیاری ہے۔

عدالتی رپورٹ میں کہا گیا کہ کراچی سے کچرہ اٹھانے کے لیے حکومت نے اربوں روپے خرچ کردیئے، مگر شہر میں صفائی کی صورتحال میں کوئی بھی بہتری نہیں آئی اور چند پوش علاقوں کے علاہ ہر جگہ سیوریج، کچرہ اور دیگر فضلہ مستقل موجود رہتا ہے۔

عدالت نے کمیشن کی جانب سے انتظامی شکایات کے بعد کراچی واٹر بورڈ (کے ڈبلیو بی) کے مینیجنگ ڈائریکٹر (ایم ڈی) مصباح الدین کو ہٹانے کا حکم دیتے ہوئے سندھ حکومت کو ہدایات کیں کہ کسی کیڈر آفیسر کو تعینات کیا جائے۔

منچھر جھیل پر رپورٹ

عدالتی کمیشن نے ماضی میں میٹھے پانی کی جنوبی ایشیاء کی سب سے بڑی جھیل کا درجہ رکھنے والی منچھر جھیل کی آلودگی سے متعلق رپورٹ بھی پیش کی۔

مزید پڑھیں: سندھ میں پانی کے معیار کی جانچ کا حکم

منچھر جھیل پر عدالتی رپورٹ کے ساتھ آبی ماہر احسن صدیقی کی رپورٹ بھی پیش کی گئی۔

آبی ماہر کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ میں کہا گیا کہ جھیل میں گرنے والے پانی میں آرسینک، مرکری اور میگنیشیم شامل ہو رہے ہیں، جو خطرناک اور مضر صحت ہیں۔

سماعت کے دوران چیف سیکریٹری سندھ رضوان میمن نے عدالت کو بتایا کہ آر بی او ڈی منصوبہ منچھر جھیل کو بائی پاس کرے گا، جس کے بعد یہ فضلہ سمندر میں داخل ہوگا۔

جس پر جسٹس قاضی فائر عیسیٰ نے ان سے استفسار کیا کہ 'کیا آپ جھیل کو آلودگی سے بچانے کے لیے سمندر کو آلودہ کریں گے؟'

عدالت نے سندھ حکومت پر برہمی کا اظہارکرتے ہوئے منچھر جھیل کی بحالی کے لیے قلیل مدتی منصوبہ تیار کرکے اس کی رپورٹ ایک ہفتے تک عدالت میں جمع کرانے کا حکم دیا۔

عدالت نے سندھ حکومت کو ہدایات کیں کہ منچھر جھیل کی بحالی کے منصوبے میں ماہرین کو بھی شامل کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: میٹھا پانی، دیہی اور شہری علاقوں کی یکساں اہم ضرورت

خیال رہے کہ مذکورہ واٹر کمیشن سپریم کورٹ کی ہدایت پر بنایا گیا تھا، جس کا مقصد ایک درخواست گزار کی جانب سے سندھ میں پینے کے صاف پانی، صحت و صفائی کی صورت حال اور صحت مند ماحول کے حوالے سے انتظامیہ کی ناکامی پر کیے گئے خدشات کی تحقیقات کرنا تھا۔

اسی کمیشن نے 4 جنوری 2017 کو پاکستان کونسل آف ریسرچ اینڈ واٹر ریسورس (پی سی آر ڈبلیو آر) کو صوبے کے عوام کو فراہم کیے جانے والے پانی کی حیاتیاتی اور کیمیائی جانچ کی ہدایت کی تھی.

عدالتی کمیشن کی ہدایات کے بعد پی سی آر ڈبلیو نے تحقیقات کے بعد 4 مارچ 2017 کو اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ سندھ کے 13 اضلاع میں شہریوں کو فراہم کیے جانے والا پینے کا پانی مضر صحت ہے.

پاکستان کونسل آف ریسرچ اینڈ واٹر ریسورس (پی سی آر ڈبلیو آر) نے سکھر، لاڑکانہ، شکارپور، ٹنڈو محمد خان، بدین ، تھرپارکر، حیدرآباد اور کراچی کے 6 اضلاع —شرقی، غربی، جنوبی، وسطی، ملیر اور کورنگی — سے پانی کے 300 نمونے حاصل کرکے ان کا ایک تفصیلی بیکٹیریل تجزیہ کیا تھا۔

پی سی آر ڈبلیو آر کی جانب سے تحقیقات کے بعد سندھ کے ان اضلاع میں زمین کی سطح پر اور زیر زمین موجود پانی کے بیشتر نمونوں کو انسانی استعمال کے لیے غیر محفوظ قرار دیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں