کراچی:وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے حکام کے مطابق ملک کے ایک نجی بینک نے تصدیق کی ہے کہ ان کے بینک اکاؤنٹس کو اے ٹی ایم (آٹومیٹڈ ٹیلر مشین) کارڈز کے ذریعے ہیک کرلیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حالیہ فراڈ کے معاملے میں کیس کی شروعات سے قبل مزید تفصیلات کا انتظار ہے۔

حبیب بینک لمیٹڈ (ایچ بی ایل) نے تصدیق کی ہے کہ ان کے 559 بینک اکاؤنٹس سے 1 کروڑ سے زائد کی رقم چوری کی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: اے ٹی ایم کارڈ کو فراڈ مشین سے کیسے بچائیں؟

ایچ بی ایل کے کارپوریٹ اور مارکیٹنگ ایگزیکیٹو نوید اصغر نے ڈان کو بتایا کہ متاثر صارفین کو گھبرانے کی ضرورت نہیں، ان کے پیسے واپس کردیئے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ 559 بینک اکؤنٹس میں سے 1 کروڑ 2 لاکھ روپیے کی رقم چوری کی گئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ' ہمارے تقریباً 1 کروڑ سے زائد صارفین ہیں جس کی وجہ سے چوری کی گئی رقم کی ایچ بی ایل کی جانب سے تشخیص کرنا مشکل ہوسکتا ہے جبکہ متاثرین کی تعداد بھی بہت کم ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: 'پاکستانی بینک اے ٹی ایم ٹیکنالوجی اپ گریڈ کریں'

انہوں نے کہا کہ 'اس طرح کے فراڈ اے ٹی ایم استعمال کرنے والے تمام ممالک میں ہوتے ہیں اور اس فراڈ کو ہم دیکھ رہے ہیں اور جلد مجرموں تک پہنچ جائیں گے'۔

انہوں نے مزید کہا کہ انہیں ہیکرز کا علم نہیں تھا لیکن انہیں یہ پتہ لگا ہے کہ رقم کی منتقلی چین انڈونیشیا اور دیگر ممالک میں کی گئی ہے۔

خیال رہے کہ جون 2016 میں ایف آئی اے نے الیکٹرانک ٹرانسیکشن آرڈیننس اور پاکستان پینل کوڈ کے تحت بینک صارفین کے ساتھ فراڈ کرنے پر چین کے شہر پر فرد جرم عائد کی تھی۔

ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ بینکس کی جانب سے اے ٹی ایم کے لیے پرانی ٹیکنالوجی کا استعمال اور اے ٹی ایم بوتھ میں دہائیوں پرانا سیکیورٹی نظام کے استعمال کی وجہ سے منظم بیرون ممالک کے گروہوں کے لیے یہ آسان ہدف ثابت ہو رہا ہے۔

مزید پڑھیں: ایک شخص کا گوگل اور فیس بک سے 20 کروڑ ڈالر کا فراڈ

اس صورت حال کے پیش نظر ایف آئی اے نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے گزارش کی ہے کہ اے ٹی ایم میں سیکیورٹی کو بہتر بناتے ہوئے سروس کے استعمال کے لیے بائیو میٹرک فیچرز متعارف کرائے جائیں۔

ایچ بی ایل کے حوالے سے حالیہ اطلاعات کے پیش نظر اسٹیٹ بینک کے حکام فراڈ اور مبینہ جرائم سے متعلق جاننے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھ گئے جس میں سیکیورٹی کو توڑنے اور ہیکنگ سے ہونے والے خطرات کے بارے میں بات چیت کی گئی۔

اسٹیٹ بینک کے ترجمان عابد قمر کا کہنا تھا کہ مسئلے کی اصل صورت حال کو جاننے اور تحقیقات کے لیے ہم ایچ بی ایل سے رابطے میں ہیں اور ہم جاننا چاہتے ہیں کہ سیکیورٹی کو کیسے توڑا گیا اور ہیکنگ سے کس قسم کے خطرات پیدا ہوسکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اب بھی علم نہیں کہ کتنی رقم چوری کی گئی ہے اسی طرح ہمیں ہیکنگ کے مقام کا بھی علم نہیں تاہم فی الحال ان سب باتوں کی تحقیقات کی جاری ہے۔

ایف آئی نے بھی ایسا ہی اپنا نظریہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ہم صرف اس بات کی تصدیق کرسکتے ہیں کہ کچھ بینک اکاؤنٹس کو ہیک کیا گیا ہے تاہم اس کی تفصیلات کا ابھی انتظار ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: 'سائبر کرائم' میں ملوث 4 ملزمان کی گرفتاری

ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر برائے سائبر کرائم حمید بھٹو کا کہنا تھا کہ میں ابھی اس واقعے کی تصدیق کرسکتا ہوں لیکن ایف آئی اے میں اب تک کوئی بھی شکایت نہیں درج کرائی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں فراڈ کے بارے میں علم ہے لیکن اس کی تعداد اور نوعیت کا نہیں جن کی وجہ سے تحقیقات کا آغاز کر سکیں۔

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال اور اس کے چند مہینوں بعد ایف آئی اے نے چینی باشندوں کو بینکس سے ان کا ڈیٹا چوری کرنے پر حراست میں لیا گیا تھا تاہم حالیہ ہونے والی ہیکنگ میں کے بارے میں ہم ابھی یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ ان میں کس قسم کی جرائم شامل ہیں۔


یہ خبر 5 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں