واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عرب رہنماؤں کو آگاہ کیا ہے کہ وہ تل ابیب سے امریکی سفارت خانہ بیت المقدس (یروشلم) منتقل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ دہائیوں سے جاری امریکی پالیسی کا یہ فیصلہ مشرق وسطیٰ میں مزید بد امنی کو فروغ دے سکتا ہے۔

ایک سینئر امریکی عہدیدار کا کہنا ہے کہ بدھ (6 دسمبر) کو ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیے جانے کا امکان ہے تاہم تل ابیب سے امریکی سفارتخانے کی منتقلی کا معاملہ ملتوی ہو سکتا ہے اور اس میں مزید 6 ماہ لگ سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ یہ بھی امکان ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ساتھیوں کو اس کی جلد منتقلی کے لیے اقدامات شروع کرنے کا حکم دے سکتے ہیں۔

واشنگٹن کی جانب سے اسرائیلی دعوے کی توثیق سے اس ہی کی پالیسی متاثر ہو گی جس کے مطابق بیت المقدس کا فیصلہ فلسطینیوں کے ساتھ مفاہمت سے ہوگا تاہم عالمی برادری بیت المقدس پر اسرائیل کے مکمل قبضے کو تسلیم نہیں کرتی۔

مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کا فیصلہ ملتوی

فلسطینی صدر محمود عباس، اردن کے بادشاہ عبداللہ، مصری صدر عبدالفتح السیسی اور سعودی عرب کے بادشاہ سلمان نے امریکی صدر کی فون کال پر یک زبان ہوکر خبردار کیا کہ بیت المقدس کے معاملے پر یکطرفہ قدم امریکی قیادت کی امن کی کوششوں کو نقصان پہنچائے گا جبکہ اس سے خطے میں افراتفری بھی بڑھ جائے گی۔

دوسری طرف ایک سینئر اسرائیلی وزیر نے ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کا خیر مقدم کیا اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اسرائیل کسی بھی طرح کے تشدد کے پھیلاؤ کے لیے تیار ہے۔

فلسطینی صدر کے ترجمان نبیل ابو ردائناہ نے بتایا کہ ڈونلڈ نے محمود عباس کو امریکی سفارتخانے کی تل ابیب سے بیت المقدس منتقلی کے ارادے سے آگاہ کردیا تھا۔

تاہم جواب میں محمود عباس نے خبر دار کیا تھا کہ اس طرح کے فیصلے سے امن عمل، دنیا اور خطے کی سلامتی اور استحکام پر خطرناک نتائج مرتب ہوں گے، ساتھ ہی انہوں نے پوپ، روس، فرانس اور اردن کے رہنماؤں سے مداخلت کرنے کی اپیل بھی کی تھی۔

اردن کے بادشاہ، جن کا خاندان بیت المقدس میں مسلمانوں کے مقدس مقامات کا محافظ بھی ہے، انہوں نے ٹرمپ کو بتایا کہ سفارت خانے کی منتقلی خطے کے لیے خطرناک عمل ہوگا اور یہ عمل اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن مذاکرات کو فروغ دینے کی امریکی کوششوں میں رکاوٹ پیدا کرے گا۔

اردن کے وزیرخارجہ ایمن السفادی نے کہا کہ اردن، امریکی صدر کی بیت المقدس کے حوالے سے نئی پالیسی پر عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم ( او آئی سی ) کا ہنگامی اجلاس منعقد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

قاہرہ سے جاری ایک صدارتی بیان میں مصر کے صدر نے امریکی صدر کو خبردار کیا تھا کہ اس طرح کا کوئی بھی اقدام امن کے امکانات کو کم کرے گا اور اس سے مشرق وسطیٰ میں معاملات پیچیدہ ہوں گے۔

سعودی پریس ایجنسی کے مطابق سعودی فرماں رواں شاہ سلمان نے امریکی صدر پر زور دیا تھا کہ بیت المقدس کے معاملے پر امریکا کا اعلان امن مذاکرات کو نقصان پہنچائے گا اور خطے میں کشیدگی بڑھ جائے گی جبکہ یہ اقدام دنیا بھر میں مسلمانوں کے جذبات کو ابھارے گا۔

خیال رہے کہ کسی بھی امریکی رہنما کی جانب سے اپنے بیان میں امریکی سفارت خانے کی منتقلی کے حوالے سے کوئی حتمی وقت نہیں بتایا گیا تاہم امریکی حکام کا کہنا ہے کہ امریکی صدر اس حوالے سے ایک قومی سلامتی کا معاہدہ طے کریں گے کہ ان کا سفارت خانہ آئندہ 6 ماہ کے لیے تل ابیب میں ہی رہے گا جبکہ یہ بات واضح نہیں کہ وہ کس تاریخ کو اپنا سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کریں گے۔

خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی الیکشن کی مہم کے دوران سفارت خانے کو بیت المقدس منتقل کرنے کا وعدہ کیا تھا تاہم ان کی جانب سے بدھ (6 دسمبر) کو فیصلے کے اعلان کا امکان ہے اور اس طرح وہ امریکا میں اسرائیل نواز اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں کو مطمئن کرنا چاہتے ہیں، جنہوں نے صدارتی کامیابی میں ان کی مدد کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: 'بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالخلافہ قرار دینا ناقابل قبول ہے'

یاد رہے کہ 1967 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ میں اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس پر قبضہ کرلیا تھا تاہم اس کا یہ اقدام بین الاقومی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔

ایک بڑی غلطی

اسرائیلی انٹیلی جنس کے وزیر اسرائیل کٹز نے گزشتہ ہفتے امریکی حکام سے واشنگٹن میں ملاقات کی تھی جس کے بعد انہوں نے اسرائیلی فوج کے ریڈیو کو بتایا تھا کہ میرا تاثر یہ ہے کہ امریکی صدر 3 ہزار سال تک یہودیوں کے ابدی دارالحکومت رہنے والے بیت المقدس کو اسرائیلی ریاست کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کریں گے۔

جب ان سے جب پوچھا گیا کہ اگر امریکی صدر ایسا ہی کرتے ہیں تو اسرائیل تشدد کی لہر کے لیے تیار ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ہر طرح سے تیاری کر رہے ہیں، اگر ابو مازن ( فلسطینی صدر محمود عباس) اس سمت میں اس کی قیادت کریں گے تو یہ ان کی سب سے بڑی غلطی ہوگی‘۔

ادھر سینئر امریکی حکام کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے کچھ افسران کو بھی اس بات پر گہرے تحفظات تھے اور یورپین یونین، فلسطینی انتظامیہ، سعودی عرب اور عرب لیگ پہلے ہی خبردار کرچکے ہیں کہ ایسا کوئی بھی اعلان خطے کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔

امریکی حکام کا کہنا تھا کہ خفیہ ادارے بھی اس بات پر متفق ہیں کہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا اسرائیل کے خلاف رد عمل کو روکنے اور مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کے لیے بھی خطر ناک ثابت ہوسکتا ہے۔


یہ خبر 06 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں