عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے وزرائے خارجہ نے مطالبہ کیا ہے کہ امریکا مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے کو منسوخ کرے جو بین الاقوامی قراردادوں کے منافی ہے۔

ہنگامی اجلاس میں کہا گیا کہ مذکورہ فیصلے سے امریکا کی اپنی حیثیت ‘قابضین’ کی ہو چکی ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی رپورٹ کے مطابق ہفتے کو ہونے والے اجلاس میں عرب لیگ نے امریکا پر زور دیا کہ وہ اس اعلان کو واپس لے جس سے خطے میں بدامنی میں اضافہ ہونے کا امکان ہے۔

اس سے قبل جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ وزرائے خارجہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں قراردار پیش کریں گے جس میں امریکی اقدام کی مخالف کی جائے گی۔

اجلاس میں قراردار پر امریکی ویٹو پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا۔

یہ پڑھیں :'بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالخلافہ قرار دینا ناقابل قبول ہے

فلسیطن کے وزیر خارجہ ریاض المالکی کا کہنا تھا کہ اگر امریکا نے قرار داد پر ویٹو کا حق استعمال کیا تو عرب لیگ ’فوری طور پر مجوزہ قرار داد کو سلامتی کونسل میں پیش کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے گی‘۔

عرب لیگ کے ہنگامی اجلاس میں دو صفحات پر مشتمل قرار داد پیش کی گئی جس میں امریکا کے حالیہ فیصلے کے خلاف کوئی حکمت عملی کا ذکر نہیں تھا۔

واضح رہے کہ اس سے قبل امریکا کے خلاف احتجاجی مہم میں امریکا کی مصنوعات کا بائیکاٹ جیسے اقدامات ہوتے رہے ہیں۔

اجلاس کے آغاز میں عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل احمد ابو الغیظ کا کہنا تھا کہ امریکا کے فیصلے کے خلاف سیاسی محاذ پر جنگ ہو گی کیونکہ سیاسی نوعیت کا عمل موثر ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : ’بیت المقدس تمام مذاہب کا گھر ہے‘

یاد رہے کہ فلسطین میں ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ فیصلے کے خلاف پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ تین روز سے جاری ہے۔

احمد ابوالغیظ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ‘بیت المقدس پر گذشتہ 50 برس سے قبضہ ہے اور مذکورہ فیصلہ جنگ کے پھیلاؤ کا سبب بنے گا’۔

قرارداد میں کہا گیا کہ عرب لیگ کے وزرائے خارجہ اگلے ماہ ملاقات کریں گے، اس حوالے سے توقع کی جارہی ہے کہ ہنگامی عرب سربراہی اجلاس اردن میں طلب کیا جائے گا جس میں مقبوضہ بیت المقدس کے مسئلے پر تبادلہ خیال ہوگا۔

فلسطین-اسرائیل جنگ

رواں ماہ کے آغاز میں امریکا کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے اعلان کے بعد دنیا بھر میں فیصلے کے خلاف شدید احتجاج سامنے آیا۔

اسرائیل اور فلسطین تنازع میں بیت المقدس کو کلیدی حیثیت حاصل ہے جبکہ ٹرمپ کے حالیہ فیصلے سے واضح ہو گیا کہ وہ اسرائیل کی جانب مائل ہیں۔

عرب سفارتکاروں کا کہنا تھا کہ بعض عرب لیگ ارکان کی جانب سے امریکا اور بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے والے دیگر ممالک کے خلاف سخت قرار داد پیش کی جائے لیکن اعتدال پسند عرب ممالک نے سخت قرار داد کی حمایت نہیں کی۔

مزید پڑھیں : بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت کیوں تسلیم نہیں کیا جاسکتا؟

فلسطینی وزیرخارجہ المالکی نے کہا کہ بیت المقدس کا مقدمہ بھرپور انداز میں پیش کیاجا ئے گا۔

عرب لیگ کے جنرل سیکریٹری اور فلسطینی وزیرخارجہ نے کہا کہ عرب ممالک 2002 میں طے شدہ امن معاہدے پر قائم ہیں جس میں واضح ہے کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ جنگ 1967 میں فلسطین کی قابض زمین کو چھوڑ دے گا جس کے بعد اس کی حیثیت کو تسلیم کیا جائےگا۔

المالکی کا کہنا تھا کہ ‘مشرق وسطیٰ میں امن کی واحد صورت یہ ہی معاہدہ ہے’.

ادھر عراقی وزیر خارجہ ابراہیم الجعفری نے خبردار کیا کہ اگر امریکا کے فیصلے پر موثر احتجاج نہیں کیا تو مزید سانحات رونما ہوں گے اور واضح کیا کہ اسرائیل کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔


یہ خبر 10 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں