اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی مقدمہ منتقلی کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے ان کی عبوری ضمانت میں 19 دسمبر تک کی توسیع کردی اور انہیں دوبارہ طلب کرلیا۔

خیال رہے کہ اسلام آباد کے ریڈ زون میں توڑ پھوڑ اور سرکاری ٹی وی، پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) پر حملے سیمت سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) اسلام آباد عصمت اللہ جونیجو کو زخمی کرنے کے کیس میں عمران خان کے وکیل ایڈووکیٹ بابر اعوان نے انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات کو چیلنج کر رکھا تھا۔

سماعت کے دوران انسداد دہشت گردی عدالت میں سرکاری استغاثہ کا کہنا تھا کہ بابر اعوان کے دلائل سے اختلاف کرتے ہیں، وہ سینیٹر رہ چکے ہیں اور اگر دہشت گردی ایکٹ میں کوئی خامی تھی تو وہ ترمیم لے آتے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک منتخب حکومت کو طاقت کے زور پر ہٹانے کے لیے لانگ مارچ کیا گیا جبکہ قانون ہاتھ میں لینا اور پولیس ملازم پر تشدد بھی دہشت گردی ایکٹ کے تحت قابل سزا جرم ہے، جس کی سزا عمر قید ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان نے انسداد دہشت گردی عدالت کے دائرہ کار کو چیلنج کردیا

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا تھا کہ یہ جرم ارادی طور پر نہیں کیا گیا جبکہ چاروں مقدمات میں وہ مرکزی ملزم ہیں۔

سرکاری استغاثہ نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان لوگوں کو لے کر آئے اور اپنی تقریروں میں وزیراعظم، سیکریٹری داخلہ اور آئی جی اسلام آباد کو للکارا جس کی وجہ سے لوگ مشتعل ہوئے۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان نے کہا تھا کہ میں تمہارے خاندان کا جینا حرام کردوں گا۔

ان کا کہنا تھا کہ دھرنے کے دوران 26 پولیس اہلکار زخمی ہوئے جن کی میڈیکل رپورٹس موجود ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ملزمان سے کٹر، ڈنڈے، غلیلیں برآمد کی گئیں جبکہ مظاہرین نے پولیس افسر سے سرکاری پستول بھی چھینا تھا۔

سرکاری استغاثہ نے عمران خان اور عارف علوی کے درمیان ہونے والی گفتگو کا بھی حوالہ دیا جس پر عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ میرے موکل کے فون بھی ٹیپ ہوتے رہے ہیں۔

تاہم بابر اعوان نے سرکاری استغاثہ سے عمران خان اور عارف علوی کی گفتگو کی کاپی مانگ لی۔

سرکاری استغاثہ کا کہنا تھا کہ ملزم اسلام آباد میں ہوتے ہوئے ساڑھے تین سال بعد عدالت میں پیش ہوئے ہیں، یہ تو ضمانت کا حق ہی نہیں رکھتے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ مقدمہ انسداد دہشت گردی عدالت میں ہی چلایا جانا چاہیے۔

سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل ایڈووکیٹ بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ تقریروں کی بنیاد پر اگر مقدمے بنائے جائیں تو پاناما کیس سے اب تک 200 سے زائد مقدمے درج ہوتے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد دھرنا: 4 مقدمات میں عمران خان کی ضمانت منظور

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے دھرنے میں مظاہرین سے کہا تھا کہ لوگوں پر تشدد نہ کرو انہیں نہ مارو۔

انہوں نے کہا کہ کہ ڈی چوک میں لوگ احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے جمع ہوئے تھے، ان لوگوں کا مقصد ہرگز دہشت گردی نہیں تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ وہ دھرنا ہے جس کے بارے میں سپریم کورٹ نے کہا کہ باہر سے اٹھ کر اندر آ جائیں۔

تاہم انسداد دہشت گردی عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند نے دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا۔

بعد ازاں فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے عمران خان کی مقدمہ منتقلی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے انہیں 19 دسمبر کو ایک مرتبہ پھر طلب کرلیا۔

کیسز میں زمین آسمان کا فرق، عمران خان

کیس کی سماعت کے بعد عمران خان نے احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جن لوگوں کا کام ریاست کے لیے کام کرنا ہے وہ حکمرانوں کے لیے کام کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شریف خاندان نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اگر ہم چور ہیں تو باقی سب بھی چور ہیں۔

سربراہ تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ سپریم کورٹ میں مجھ پر چلنے والا کیس اور پاناما کیس ایک جیسے ہیں جب کہ ان کیسز میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد دھرنا: ’عمران خان کا تحریری بیان قابلِ قبول نہیں‘

عمران خان کا کہنا تھا کہ میں نے 60 لاکھ روپے کا فلیٹ خرید کر 7 دستاویزات جمع کرائے جبکہ شریف خاندان نے 30 ہزار کروڑ روپے کی منی لانڈرنگ کرکے صرف قطری خط دکھایا۔

ماڈل ٹاؤن سانحے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس جیسے سانحے کی مثال جمہوری تاریخ میں نہیں ملتی پاکستان کی پوری عوام اس کی مذمت کرتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب تک آصف علی زرداری، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے صدر ہیں تحریک انصاف ان سے کسی قسم کا اتحاد نہیں کرسکتی۔

انسداد دہشت گردی عدالت کی اب تک کی کارروائی

2014 میں اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے دھرنے کے دوران مشتعل افراد نے یکم ستمبر کو پی ٹی وی ہیڈ کوارٹرز پر حملہ کردیا تھا، جس کی وجہ سے پی ٹی وی نیوز اور پی ٹی وی ورلڈ کی نشریات کچھ دیر کے لیے معطل ہوگئی تھیں۔

حملے میں ملوث ہونے کے الزام میں تقریباً 70 افراد کے خلاف تھانہ سیکریٹریٹ میں پارلیمنٹ ہاؤس، پی ٹی وی اور سرکاری املاک پر حملوں اور کار سرکار میں مداخلت کے الزامات کے تحت انسداد دہشت گردی سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری پر اسلام آباد کے ریڈ زون میں توڑ پھوڑ اور سرکاری ٹی وی پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) پر حملے سیمت سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) اسلام آباد عصمت اللہ جونیجو کو زخمی کرنے کا الزام ہے۔

پی ٹی وی اور پارلیمنٹ حملہ کیس میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کیے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد دھرنا: عمران خان کا وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ

بعد ازاں انسداد دہشت گردی عدالت نے مسلسل پیش نہ ہونے کے باعث عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے ورانٹ گرفتاری اور جائیداد ضبط کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔

خیال رہے کہ 14 نومبر 2017 کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی ایس ایس پی عصمت اللہ جونیجو تشدد کیس سمیت چار مقدمات میں ضمانت منظور کی تھی۔

7 دسمبر 2017 کو انسداد دہشت گردی عدالت نے عمران خان کی عبوری ضمانت میں 11 دسمبر تک کی توسیع کردی تھی جبکہ عمران خان نے عدالت کے دائرہ کار کو چیلنج کیا تھا۔

یاد رہے کہ گزشتہ سماعت کے دوران اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے عمران خان کو پی ٹی وی اور پارلیمنٹ حملہ کیس سمیت چار مقدمات میں شامل تفتیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں