لاہور: نئی حلقہ بندیوں سے متعلق پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے مطالبات کے حوالے سے سیاست دانوں کا ماننا ہے کہ اگر ان کی تجاویز میں نرمی دکھائی گئی تو پاکستان مسلم لیگ (ن) ان پر غور کر سکتی ہے۔

پی پی پی نے مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کو نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے 12 مطالبات پیش کیے تھے اور کہا گیا تھا کہ یہ تمام تجاویز آئینی حیثیت کی ہیں جبکہ حمکراں جماعت ان تجاویز کو 2018 کے انتخابات میں تاخیر کے حوالے سے سازش قرار دینے کے بجائے نرمی دکھائے اور بنا کسی تاخیر کے ان مطالبات کو تسلیم کرے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے درمیان وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے مداخلت کے باوجود نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے تناؤ برقرار رہا۔

سینیٹ میں پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر تاج حیدر نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مسلم لیگ (ن) کو پیپلز پارٹی پر نئی حلقہ بندیوں سے متعلق بل کی حمایت نہ کرنے کا الزام عائد نہیں کرنا چاہیے۔

مزید پڑھیں: حلقہ بندی معاملہ: مطالبات کی منظوری تک حکومت کا ساتھ نہیں دیں گے، پی پی پی

ان کا مزید کہنا تھا کہ حکمراں جماعت کو شور شرابہ نہیں کرنا چاہیے کہ اگر پی پی پی نے بل کی حمایت نہیں کی تو انتخابات ملتوی ہو سکتے ہیں بلکہ اس حوالے سے ہمارے مطالبات کو تسلیم کرلینا چاہیے جو کہ سندھ کے عوام کے حقوق کی حفاظت کے لیے ہیں۔

تاج حیدر نے کہا کہ ان کی جماعت کی جانب سے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی سمیت مسلم لیگ کے دیگر قائدین کو تجاویز کا مسودہ دے دیا گیا ہے تاہم اب تک حکمراں جماعت کی جانب سے یہ نہیں بتایا گیا کہ تجاویز اور ان کے نفاذ میں کیا مسائل درپیش ہیں۔

انہوں نے سوال کیا کہ حکمراں جماعت کی جانب سے پیپلز پارٹی کے مطالبات پر نرم رویہ کیوں نہیں اپنایا جارہا؟

پی پی پی سینیٹر کا کہنا تھا کہ حکومت کو مردم شماری کے نام پر (سندھ میں) ہونے والی ’بڑی جعلسازی‘ کو تسلیم کرنا ہوگا اور اسے ختم کرنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: نئی حلقہ بندیوں پر اپوزیشن کے تحفظات دور نہ ہوسکے

انہوں نے الزام عائد کیا کہ مسلم لیگ (ن) خود اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہے اور پیپلز پارٹی پر الزام عائد کر رہی ہے کہ یہ مذکورہ بل کی حمایت کسی کے کہنے پر نہیں کر رہے۔

وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر مشاہد اللہ خان نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت، پی پی پی کے حقیقی مطالبات پر غور کرنے کے لیے تیار ہے تاہم ایک بین الاقوامی ادارے کی جانب سے ڈیموگرافک سروے کی تجویز کو قبول کرنا ممکن نہیں ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ مسلم لیگ کی جانب سے پی پی پی کے ان مطالبات کو سراہا جاتا اگر وہ نئی حلقہ بندیوں سے متعلق یہ مطالبات قومی اسمبلی میں بل پر ووٹنگ سے پہلے پیش کرتے۔

مشاہد اللہ خان نے کہا ’ہم پی پی پی کو اعتماد میں لینے کے خواہاں ہیں، اور اسی لیے ہم ہر سطح پر پیپلز پارٹی کی قیادت سے رابطے میں تاہم اس حوالے سے کسی بھی وقت اہم پیش رفت ہو سکتی ہے۔

تاہم پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ حکمراں جماعت کو ان کی تجاویز کو قبول کرنے میں کسی قسم کی ہچکاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں