اسلام آباد: دی گلوبل نیوٹریشن پورٹ 2017 میں انکشاف کیاگیا ہے کہ پاکستان میں 6 فیصد بچے کا ناصرف غذائی قلت بلکہ مضرصحت کھانا (جنک فوڈ) سے موٹاپے کا شکارہیں۔

رپورٹ کے مطابق شہری علاقوں میں متاثرہ بچوں کی بڑی تعداد نوٹ کی گئی۔

پلاننگ کمیشن آف پاکستان اور اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے عالمی فوڈ پروگرام کے تعاون سے جاری رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان قوت بخش غذا پر جی ڈی پی کا صرف 3.7 فیصد خرچ کرتا ہے جو ایشیائی ممالک کے مقابلے میں سب سے کم ہے۔

یہ پڑھیں: موسمی تبدیلی، پانی کی قلت سے صحرائی رقبے میں اضافہ

رپورٹ میں پاکستان دیگر ممالک سے تقابلی جائزے میں بتایا گیا کہ نیپال اور بنگلہ دیش اپنے جی ڈی پی کا بل ترتیب 13 اور 8 فیصد حصہ قوت بخش غذا پر خرچ کرتے ہیں۔

پلاننگ ڈیژون میں محکمہ غذا کے چیف اسلم شاہین نے رپورٹ کے نکات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ دنیا میں تین بڑے طبی مسائل سراٹھائے کھڑے ہیں جن میں بچوں کی نشونما میں کمی، تولیدی عمر میں خون کی کمی اور بالغ خواتین میں عمر اور قد کے تناسب سے زائد وزن قابل ذکر ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ عالمی سطح پر غذائیت سے متعلق طے شدہ اہداف پر کیس ملک نے تولیدی عمرمیں خون کی کمی کے مسئلے پر سنجیدگی سے کام نہیں کیا۔

یہ بھی پڑھیں: غذا سے متعلق چند غلط توہمات

رپورٹ کے مطابق ‘پیدائش سے لیکر پانچ ماہ کے بچے کو ماں کے دودھ پلانے کے اشاریوں میں معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے‘۔

پاکستان کے حوالے سے بتایا گیا کہ ‘1992 سے لیکر 2012 کے دورانیے میں بچوں کی نشو نما کی کمی کا تناسب 43 سے بڑھ کر 45 ہو گیا ہے جبکہ بچوں کو ماں کا دودھ پلانے کے رحجان میں دگنا اضافہ ہوا ہے’۔

شاہین نے بتایا کہ پاکستان میں موٹاپے کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، رپورٹ کے مطابق 31 فیصد خواتین اور 25 مرد موٹاپے کے امراض میں مبتلا ہیں جبکہ ملک کے 70 فیصد آبادی متوازن غذا کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔

مزید پڑھیں: صومالیہ: بھوک کے باعث 48 گھنٹوں میں 110 افراد ہلاک

ڈاکٹر ارشاد دانش نے بتایا کہ پاکستان میں 40 فیصد خوراک ضائع ہوجاتی ہے جس کو محفوظ بنانے کے لیے کوئی حکمت عملی تیار نہیں کی جاری۔

ڈپٹی اسپیکر سند ھ اسمبلی شہلا رضا نے کہا کہ ان کے اپنے صوبے میں تھر کے عوام سب سے زیادہ غذائی قلت کا شکار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سندھ میں بچہ شادی پر پابندی اور بچوں کی پیدائش میں وقفے کے حوالے مزید قانون سازی کی ضرورت ہے۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اسپیکر بلوچستان اسمبلی مس راحیلہ حمید درانی نے کہا کہ بلوچستان میں روزگار کے مواقع بہت کم ہیں جبکہ صوبے کی آبادی کا بڑا حصہ بھی غذائی قلیت کا شکار ہے۔

انہوں وفاقی حکومت پر زور دیا کہ صوبہ بلوچستان کے لیے مالی وسائل میں اضافہ کیا جائے۔


یہ خبر 19 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں