اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے کہا ہے کہ افغانستان میں پائیدار امن کا قیام صرف مذاکرات اور وہاں پر مسلط کردہ جنگ کے خاتمے کے ذریعے ہی ممکن ہے جہاں جنگی صورت حال اور دہشت گردی دراصل غیرملکی فوجی مداخلت کے نتائج ہیں۔

اے پی پی کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں افغانستان کی صورت حال پر ایک مذاکرے سے خطاب کرتے ہوئے ملیحہ لودھی نے کہا کہ بیک وقت قتل و غارت اور مذاکرات کا عمل نہیں چل سکتا۔

انھوں نے کہا کہ افغانستان میں فوج کے استعمال کا راستہ اختیار کرنا ماضی سے مختلف نتائج نہیں دے سکتا، افغانستان میں جنگی صورت حال، تشدد کی فضا اور دہشت گردی دراصل افغانستان میں غیرملکی فوجی مداخلت اور مسلط کردہ جنگ کے نتائج ہیں۔

پاکستانی مندوب کا کہنا تھا کہ افغانستان میں فوجی طاقت کے ذریعے امن نہیں لایا جا سکتا، کابل، نیٹو اتحاد اور نہ ہی افغان طالبان کے ذریعے افغانستان کا امن بحال کیا جا سکتا ہے۔

ملیحہ لودھی نے کہا کہ افغانستان کے اندر 16 سال سے جاری جنگ نے کوئی فائدہ نہیں دیا،افغانستان میں پائیدار امن کا قیام صرف مذاکرات اور وہاں پر مسلط کردہ جنگ کے خاتمے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

پاکستان میں کسی بھی دہشت گرد کی محفوظ پناہ گاہوں کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے پاکستانی سفیر نے کہا کہ پاکستان کے اندر دہشت گردوں کی کوئی پناہ گاہ موجود نہیں تاہم افغانستان کے اندر ایسے علاقے ہیں جہاں دہشت گرد پناہ لیتے ہیں تاہم سرحد پار دہشت گردی کو روکنے کے لیے سرحدی سیکورٹی دونوں ممالک کے لیے ضروری ہے۔

یہ بھی پڑھیں:’امریکی بیانات میں اقوام متحدہ،افغان جنگ میں ناکامی کی جھلک‘

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے اندر کئی دہشت گرد گروہ داعش کی چھتری تلے جمع ہورہے ہیں جس سے افغانستان میں ایک نیا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان کے عوام کو باہمی مشترکات اور دیگر تعلقات کے مطابق پابند کیا گیا ہے اور اس وقت بھی پاکستان میں تقریباً 30 لاکھ افغان باشندے رہائش پذیر ہیں۔

ملیحہ لودھی نے مزید کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے نومبر میں ایک مشترکہ ایکشن پلان تجویز کیا گیا تھا جس کا مقصد تعمیری اور بامقصد دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں