ہر شخص پُراعتماد شخصیت کا مالک بننا چاہتا ہے اور جو شخص پہلے سے ہی اِس خوبی کا مالک ہے وہ چاہتا ہے کہ اپنی شخصیت میں مزید نکھار پیدا کرے۔ دراصل خود اعتمادی خصوصیت ہی ایسی ہے کہ آپ کی ذاتی اور عملی زندگی کے لئے جادو کا کام کرتی ہے۔ درحقیقت اعتماد ایک ایسے فارمولے کا نام ہے جو انسان کی زندگی میں بہت مثبت تبدیلی لے کر آتا ہے۔

کبھی کسی پُراعتماد انسان سے ملیں اور پھر ایک اعتماد سے عاری انسان سے، آپ محسوس کریں گے کہ پُراعتماد فرد کی شخصیت کی کشش آپ کو بھی توانائی مہیا کررہی ہے، اُس کی پُرعزم آواز، پُراعتماد لہجہ اور اُس سے بات کرکے آپ اپنے اندر بھی ایک خوشگوار تبدیلی محسوس کریں گے۔

یہی وجہ ہے کہ پُراعتماد لوگ صرف لوگوں کے دلوں میں گھر کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے، بلکہ بہت جلد کامیابی کی راہوں پر گامزن بھی ہوجاتے ہیں، جبکہ دوسری جانب وہ لوگ جو اعتماد سے خالی ہیں، اُن کی باتوں میں ڈر، بے یقینی اور مایوسی کا عنصر غالب ہوتا ہے۔ اُن کی باتوں میں مثبت پہلو کم اور منفی تاثر بہت زیادہ ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک نارمل انسان بھی جب اُن سے بات کرتا ہے تو کچھ دیر بعد خود کو بے یقینی کی کیفیت سے دوچار کردیتا ہے۔

مزید پڑھیں: نو عادتیں جو بنادیں آپ کو پراعتماد

آج ہمارا موضوع یہی ہے کہ ہم کیسے اپنی شخصیت کو پُراعتماد بناسکتے ہیں؟

کیا آپ کی چال ڈھال کا آپ کے ذہن پر کچھ اثر ہوتا ہے؟ بس اگر آپ یہ کلیہ سمجھ لیں تو پھر آپ کو پُراعتماد شخصیت بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

جب آپ خوش ہوتے ہیں تو مسکراتے ہیں، جب آپ دُکھی ہوتے ہیں تو آپ کا منہ لٹک جاتا ہے اور جب آپ غصے میں ہوتے ہیں تو آپ کے ماتھے پر بل پڑجاتے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کے دل و دماغ آپ کو جو بھی سگنل فراہم کریں گے آپ کا رویہ اُسی کے مطابق تبدیل ہوتا چلا جاتا ہے۔ لیکن اگر ہم اِس نکتے کو اُلٹ کردیں تو کیا یہ ویسے ہی کام کرسکے گا؟ مثلا اگر ہم مسکرانے کی اداکاری کریں تو کیا ایسا ممکن ہے کہ ہم اصل میں خوش ہوجائیں؟ یا ہم خود اعتمادی کی ایکٹنگ کریں تو کیا خود کو خود اعتماد محسوس کریں؟

ایمی کڈی ایک امریکن محقق ہیں اور اُنہوں نے مختلف تجربات سے اِسی بات کو ثابت کیا ہے کہ انسان کی باڈی لینگویج کا اُس کے ذہن پر کیا اثر ہوتا ہے اور وہ کیسے اِس اثر کو اپنے حق میں اور روز مرہ معاملات میں استعمال کرسکتا ہے؟

ایمی کڈی نے اِس تحقیق کے لیے کچھ لوگوں کو منتخب کیا اور اُنہیں دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ ایک گروپ میں موجود افراد سے کہا گیا کہ وہ کچھ دیر کے لئے ’ہائی پاور پوز‘ بنائیں، یعنی کہ کُھل کر اور چوڑا ہوکر کھڑے ہوں یا بیٹھیں (جیسے کہ پُراعتماد افراد بیٹھتے ہیں)۔ اِسی طرح دوسرے گروپ کو کہا گیا کہ ’لو پاور پوز‘ بنائیں یعنی کہ جھک کر بیٹھیں (جیسے کمزور افراد بیٹھتے ہیں)۔ بعد ازاں دونوں گروپ کے ٹیسٹ کئے گئے تو یہ بات ثابت ہوئی کہ پہلے والا گروپ جس کو ’ہائی پاور پوز‘ کا ٹاسک دیا گیا تھا اُس کے جسم میں اسٹریس ہارمون کی کمی واقع ہوئی تھی جس کی وجہ سے وہ خود کو پُراعتماد اور تازہ دم محسوس کرنے لگے تھے جبکہ دوسری جانب جس گروپ کو ’لو پاور پوز‘ کا ٹاسک ملا تھا اُن میں اسٹریس ہارمون کی زیادتی ہوئی تھی جس کی وجہ سے وہ کنفیوژن محسوس کرنے لگے تھے، اور یہی کنفیوژن اُن میں اعتماد کی کمی کا سبب بنی۔

اِس تجربے سے ثابت یہ ہوا کہ انسان کے اُٹھنے بیٹھنے اور زندگی گزارنے کے طریقے کا اُس کے ذہن میں بہت اثر ہوتا ہے، جسے کم ہی محسوس کیا جاتا ہے۔ ابتدائی طور پر انسان کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ پُراعتماد نظر آنے کے لیے کوشش کرے، جب ایک بار ایسا کرنے کی اُس کو عادت ہوجائے گی تو بتدریج ایک وقت ایسا آئے گا کہ وہ حقیقی طور پر پُراعتماد ہو بھی جائے گا۔

ایمی کڈی کی یہ تحقیق دراصل اُس کے ذاتی حالات و تجربات کی وجہ سے ہوئی ہے۔ وہ بچپن سے ہی ایک ذہین اور تیز لڑکی تھی، ہر کلاس میں کامیابی حاصل کرنے والی، لیکن 19 سال کی عمر میں جب وہ کالج میں تھی تو حادثے میں اُس کے سر پر چوٹیں آئیں۔ اِس حادثے کے نتیجے میں ایمی کڈی کافی عرصہ کومے میں رہیں، جس کے سبب اُس کو کالج چھوڑنا پڑا۔ جب وہ صحت مند ہوئی اور دوبارہ کالج جوائن کیا تو اُس نے یہ بات جانی کہ اُس کا ’آئی کیو لیول‘ کافی گرچکا ہے، یہ اُس کے لئے ایک بہت بُری خبر تھی کیونکہ وہ ایک ذہین اور اسمارٹ لڑکی تھی، وہ پیدائشی طور پر غیر معمولی صلاحیت کی حامل تھی، مگر اب وہ نہ پہلے جیسی تیز رہی تھی اور اُس میں اعتماد کی شدید کمی بھی ہوچکی تھی۔

ایمی کے لیے یہ سب برداشت کرنا بہت مشکل ہوگیا تھا کیونکہ ایک وہ وقت تھا جب لوگ اُسے اُس کی ذہانت کی وجہ سے جانتے تھے مگر اب اُس سے یہ خطاب چھن چکا ہے۔ پہلے اگر اُس کی کلاس میں کوئی سوال پوچھا جاتا تو سب سے پہلے اُٹھنے والا ہاتھ ایمی کا ہی ہوتا تھا مگر اب اُس میں ایسا اعتماد نہیں تھا، اب وہ کلاس میں بات کرتے ہوئے بہت گھبراتی تھی، مگر بہرحال اُس نے ہمت نہ ہاری، وہ پڑھتی رہی، محنت کرتی رہی، فیل ہوتی رہی مگر گِر گِر کر سنبھلتی رہی، اور بالآخر اُس نے کالج سے گریجویشن کرلیا جس میں اُس کو دوسرے طلباء کی نسبت زیادہ وقت لگا۔

اِس مستقل محنت کے نتیجے میں وہ ہارورڈ یونیورسٹی تک پہنچ گئی، مگر یہاں ایک اور مسئلہ سامنے تھا۔ کلاس میں ہونے والی گفتگو میں حصہ لینے کے زیادہ مارکس تھے، مگر ایمی کے پاس وہ اعتماد نہیں تھا کہ وہ کلاس میں ہاتھ کھڑا کرکے کسی سوال کا جواب دے سکے، لہٰذا اُس کی استانی نے ایک دن ایمی کو الگ سے بلایا اور کہا کہ اگر تم کلاس میں کارکردگی نہیں دکھاؤ گی تو فیل ہوسکتی ہو، جس پر ایمی نے مایوسی میں کہا کہ یہ جگہ میرے لئے نہیں ہے!

پروفیسر نے اُس کا مسئلہ سمجھتے ہوئے کہا کہ تم پُراعتماد ہونے کی اداکاری کرو اور تم دیکھنا کہ بتدریج تم اپنے اندر اعتماد بڑھتے ہوئے محسوس کرو گی۔ ایمی کڈی کو ایسا کرنے میں پہلے پہل تو کافی مشکل ہوئی، بلکہ صورتحال کچھ ایسی ہوگئی تھی کہ اُس نے اگلے دن پھر اپنی استانی سے کہا کہ ’میں یہ نہیں کروں گی کیونکہ میں یہ ہوں ہی نہیں جو میں دکھانا چاہ رہی ہوں،‘ مگر اُس کی استانی نے اُس کو سمجھایا کہ تم پیچھے نہیں ہٹو اور تم نے بس یہ اداکاری کرنی ہے۔

مگر ناجانے اگلے دن ایسا کیا ہوا جس نے اُس کی زندگی بدل دی۔ کلاس میں پروفیسر نے ایک سوال کیا اور ایمی کڈی نے اُس کا جواب دیا، جواب میں پروفیسر نے نہ صرف خود اُس کی تعریف کی بلکہ یہ بھی کہا کہ اُس دن کلاس میں سب سے اچھی کارکردگی اُس کی رہی۔ یہ وہ الفاظ تھے جس نے ایمی کی ہمت بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بس اُس دن کے بعد ایمی نے اپنے اُٹھنے، بیٹھنے کے انداز کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا جس کے نتیجے میں اُس نے اپنے اندر کم ہوتے اعتماد کو دوبارہ بحال ہوتا محسوس کیا۔

اپنے ساتھ ہونے والے اِس پورے واقعے کے بعد اُس نے انسانی روئیوں اور اُس کی شخصیت پر تحقیق کی اور اپنی تحقیق کو اوپن فورم پر بیان کرکے آج بہت سی زندگیوں کو تبدیل کرنے کا سبب بن رہی ہے۔

ایمی کڈی نے اپنی تحقیق کو چند الفاظ میں یوں بیان کیا

Fake it till you make it

یعنی اداکاری کرو، یہاں تک کہ تم وہی بن جاؤ!

اور اِسی فارمولا پر عمل کرکے آج بہت سے لوگ پُراعتماد ہوچکے ہیں۔

اگر آپ کو کوئی ایسا کام کرنا ہے جس میں آپ کو پُراعتماد رویہ چاہیے، جیسے

  • بھری محفل میں پریزنٹیشن دینا،
  • انٹرویو دینا،
  • کسی سے پہلے ملاقات کرنا، یا دیگر

تو ایسے کسی بھی کام کرنے سے پہلے اپنے اعتماد کو بحال کرنے کے لئے صرف 2 منٹ کے لیے آپ اپنی پوزیشن تبدیل کرلیں۔ جیسے اگر بیٹھے ہیں تو بیٹھنے کے اندار کو بدل لیں، اور کھڑے ہیں تو کھڑے ہونے کا انداز تبدیل کرلیں، یوں آپ اپنے اعتماد میں ایک واضح تبدیلی محسوس کریں گے۔ نیچے دی گئی تصویر میں آپ ’ہائی پاور پوز‘ اور ’لو پاور پوز‘ کی مختلف مثالیں دیکھ سکتے ہیں۔

تصویر: ہارورڈ یونیورسٹی
تصویر: ہارورڈ یونیورسٹی

یہاں ایک اور بات یہ بتاتا چلوں کہ کسی بھی انٹرویو سے قبل اگر آپ انتظار گاہ میں جائیں تو آپ دیکھیں گے کہ اُس انتظار کی گھڑی میں لوگ موبائل فون کا بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں، اور فون استعمال کرتے ہوئے اکثر افراد اپنے کاندھے جھکا لیتے ہیں، اور اِس طرح جھکے ہوئے بیٹھنے سے اُن کا اعتماد بھی جھک سا جاتا ہے، حالانکہ ایسے مواقعوں پر اپنے اعتماد کو بڑھانے کے لئے ’ہائی پاور پوز‘ کا استعمال زیادہ مفید ہے۔

تو مستقبل کے حوالے سے کوشش کیجیے کہ اگر کسی مشکل میں ہیں یا پریشانی کے سبب دل و دماغ میں صرف منفی خیالات گھر کرنے کی کوشش کررہے ہیں تو خود کو جھنجھوڑیے اور یہ عہد کریں کہ حالات چاہیں جتنے بھی کٹھن کیوں نہ ہوں، ہمیں خود کو منفی خیالات کو ایک طرف رکھتے ہوئے مثبت سوچنا ہے، پھر چاہے ایسا کرنے کے لیے ابتدائی طور پر اداکاری کرنے کی ہی ضرورت پیش کیوں نہ آئے۔

تبصرے (7) بند ہیں

Emran Dec 26, 2017 07:25pm
It Works
محمد وقاص Dec 26, 2017 09:11pm
واہ۔۔۔۔ پڑھنے کے دوران پاور ہائی پوز اپناتے ہی واضحہ تبدیلی محسوس ہونے لگی۔ شکریہ
ayesha aish Dec 27, 2017 09:58am
@Emran v Inspirational Article..... Thanx.
سید اویس مختار Dec 27, 2017 02:00pm
@Emran شکریہ
سید اویس مختار Dec 27, 2017 02:01pm
@محمد وقاص : جی :) اب یہ علم خاص طور پر اپنے ان تمام دوستوں تک پہنچائیں جن کے بارے میں آپ سمجھتے ہیں کہ وہ اعتماد کی کمی کا شکار ہیں۔
سید اویس مختار Dec 27, 2017 02:01pm
@ayesha aish بہت بہت شکریہ
Faheem Tareen Dec 27, 2017 03:16pm
A good read