سعودی حکومت نے نومبر میں کرپشن کے الزامات کے تحت گرفتار کیے گئے ملک کے لگ بھگ 200 طاقتور اور امیر ترین افراد میں سے 23 کو حکومت سے معاہدے کے بعد رہا کردیا۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ نے اوکاز اخبار کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ جن افراد کو رہا کیا گیا ان کے نام سامنے نہیں آئے، تاہم سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی ہدایت پر گرفتار کیے جانے والے شہزادوں، کاروباری افراد اور حکومتی عہدیداروں میں سے وقتاً فوقتاً رہائی پانے والوں میں سے یہ سب سے زیادہ تعداد ہے۔

کرپشن کے الزام میں گرفتار کیے جانے والے ان افراد کو نومبر کے اوائل سے دارالحکومت ریاض کے پرتعیش ’رِز ہوٹل‘ میں حراست میں رکھا گیا تھا اور انہیں اپنے اثاثے اور نقد رقم حکومت کے حوالے کرنے کے عوض آزادی کی پیشکش کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی شہزادے کو 6 ارب ڈالرز میں آزادی کی پیشکش

اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا کہ آنے والے دنوں میں حراست میں رکھنے والے مزید افراد رہا ہوں گے اور الزامات سے مسلسل انکار کرنے والوں کے خلاف ٹرائل کا جلد آغاز ہوگا۔

سعودی انتظامیہ رہائی کے بدلے حاصل ہونے والی رقم اور اثاثوں کو بلیک میلنگ کے طور پر نہیں دیکھ رہی بلکہ کئی دہائیوں تک غیر قانونی طور پر حاصل کی گئی دولت کی واپسی کو رہائی پانے والوں کی ذمہ داری سمجھتی ہے۔

سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی ایک ویڈیو میں سعودی ٹیلی کام کے سابق چیف ایگزیکٹو سعود الدَویش کو مسکراتے ہوئے دیکھا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ حراست کے دوران ان کی خاطر مدارت کی گئی اور ان کا ہر طرح سے خیال رکھا گیا۔

مزید پڑھیں: سعودی عرب: شہزادہ متعب بن عبداللہ ولی عہد کی قید سے رہا

سعودی حکام کی جانب سے اس حوالے سے کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا۔

واضح رہے کہ نومبر میں درجنوں شہزادوں، کاروباری افراد اور حکومتی عہدیداروں سمیت تقریباً 200 افراد کو حراست میں لیا گیا تھا اور کریک ڈاؤن کے دوران 2 ہزار سے زائد بینک اکاؤنٹس منجمد کیے گئے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس اقدام کے ذریعے مستقبل کے بادشاہ نے حکومتی معاملات پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی بھی کوشش کی۔


یہ خبر 27 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں