فاطمہ ثریا بجیا کی سوانح حیات لکھنے کے لیے کچھ عرصے کراچی کے علاقے بہار مسلم سوسائٹی میں اُن کے گھر پر مقیم رہی۔ بجیا کے ساتھ رہنے کی وجہ سے میری یہ خواہش ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی رہی کہ کب میری ملاقات زبیدہ آپا سے ہو، کیونکہ اب تک اُن سے تو میری کوئی ملاقات نہیں ہوسکی تھی، ہاں البتہ اُن کے پکائے کھانوں سے ہوتی رہتی تھی۔

وہ اکثر اپنے ڈرائیور کے ہاتھوں کچھ نہ کچھ پکا کر بجیا کے لیے بھجوا دیتیں۔ بجیا کے گھر زیادہ مہمان آرہے ہوں یا پھر کسی سفیر کی آمد ہوتی، دعوت کا کھانا عموماً زبیدہ آپا کے یہاں سے پک کر آتا۔ زبیدہ آپا کا شیڈول شدید مصروف رہتا تھا، جبکہ دوسری طرف بجیا کا یہ عالم تھا کہ وہ گھر میں ٹِک کر نہیں بیٹھتی تھیں۔

مجھے ہمیشہ سے لکھنے لکھانے کا شوق رہا، اِس لیے کبھی بھی کوکنگ شوز کو اتنا ذوق و شوق سے نہیں دیکھا تھا، اور یہی وہ شوز تھے جن کی وجہ سے زبیدہ آپا کے چاہنے والوں کی تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جارہی تھی۔ ہاں البتہ ’ڈالڈا کا دسترخوان‘ نامی ایک میگزین میں، میں نے زبیدہ طارق کے ٹوٹکے بڑے شوق سے پڑھے تھے۔

پڑھیے: بجیا: ٹھنڈی تھی جس کی چھاؤں

لیکن پھر وہ یادگار دن آ ہی گیا جب زبیدہ طارق سے میری ملاقات ہوگئی۔ یہ گرمیوں کی ایک صبح تھی جب بجیا کے گھر زبیدہ آپا سے میری پہلی ملاقات ہوئی۔ یہ دن شاید زبیدہ آپا نے آپریشن کلین اپ کے لیے سنبھال رکھا تھا۔ وہ آئیں اور انہوں نے بجیا کے گھریلو ملازموں کو ایک طرف کیا اور خود ہی گھر کے نظام کو درست کرنے کا آغاز کردیا۔ کچھ ہی گھنٹوں میں انہوں نے بجیا کی لائبریری، بیڈروم، کچن، لان غرض پورے گھر کا نقشہ ہی بدل ڈالا۔

جوانوں سے بڑھ کر زبیدہ آپا نے کام کیا۔ پورا دن کام کرنے کے بعد میرا خیال تھا کہ اب وہ کچھ دیر آرام کریں گی، مگر دن ڈھلنے کو تھا کہ اُنہوں نے ساڑھی باندھی اور کوکنگ شو کی ریکارڈنگ کے لیے روانہ ہوگئیں۔ چند دن بعد میں بجیا کے گھر گئی تو اچھا سا احساس ہوا۔ تھوڑا غور کیا تو پورے گھر پر نیا پینٹ ہوا دیکھا۔ بجیا کے یہاں برسوں سے کام کرنے والے گھریلو ملازم عبدالوہاب سے پوچھا کہ یہ یکایک کیا ہوا، تو انہوں نے کہا کہ:

’زبیدہ آپا پچھلے ہفتے آیا تھا تو آپ کے سامنے خود گھر کی صفائی کیا، بعد میں پینٹرز بھیج کر پینٹ کروا دیا ہے۔‘

کمال حیرت یہ کہ بجیا کی طرح زبیدہ آپا کا اسٹیمنا بھی کمال کا تھا، دوپہر کو آرام کرنا تو بہت دور کی بات، وہ رات کو محض چند گھنٹے سونے کے علاوہ بستر پر لیٹتی تک نہیں تھیں۔ سارا دن ٹی وی، ریڈیو پروگرامز میں مصروف رہنا اور ساتھ ہی گھر پر بڑی دعوتوں کا اہتمام کرنا زبیدہ آپا کا شوق تھا۔

اِن دونوں بہنوں کی والدہ پاشی کی تربیت کا ایک بڑا خاصہ گھر میں مہمان داری تھا، یہی وجہ تھی کہ جیسے بجیا کے گھر ناشتے سے رات کے کھانے تک مہمانوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا، ایسے ہی زبیدہ آپا کے گھر دعوتوں کے دور چلتے رہتے تھے اور دعوتیں بھی کوئی ایسی ویسی نہیں، بلکہ پکانے والی زبیدہ آپا ہوا کرتی تھیں اور مہمانوں کی تعداد یہی کوئی دو سو، تین سو کے قریب۔ مہمان نوازی کے اِسی شوق کی وجہ سے اُنہوں نے بڑے مجمعے کے لیے کیٹرنگ، برتنوں اور بڑی دیگوں کا انتظام کر رکھا تھا۔

مزید پڑھیے: ’تو اس طرح خاموشی سے آپ نے یہ دنیا چھوڑ دی‘

بجیا کبھی کبھی اپنے گھرانے پر اللہ کے انعام و اکرام کی بات کرتیں تو ایک ایک بہن اور بھائی کے گُن گاتی جاتیں اور کہتیں کہ:

’احمد مقصود، انور مقصود، سارہ نقوی اور زہرہ نگاہ اِن سب کی پہچان اِن کے قلم سے بنی، فاطمہ صغریٰ کاظمی نے عروسی ملبوسات بنانے میں اپنا نام بنایا کہ آج اُس کی بہو بنٹو کاظمی کی اپنی پہچان ہے، اور سب سے زیادہ تو ہماری سب سے چھوٹی بہن زبیدہ ہے، دیکھو ٹوٹکے بتا بتا کر سب کی آپا بن گئی۔‘

میں نے یہ بار بار دیکھا کہ زبیدہ آپا کا ذکر کرتے ہوئے بجیا چہک سی جاتی تھیں۔ وہ اکثر کہتی تھیں کہ زبیدہ وہی ٹوٹکے سناتی ہے جو ہماری نانی اور پاشی یعنی والدہ کے سکھائے ہوئے تھے۔ یہ تو گھر کی عام سی باتیں تھیں، دیکھو اُنہی کو بتا کر آج وہ کہاں پہنچ گئی۔

زبیدہ آپا کے حوالے سے یہ بات بھی اہم ہے کہ اُنہیں دنیا کے بہترین دال بنانے والے شیف کی فہرست میں جگہ ملی اور زبیدہ آپا پاکستان کی واحد کوکنگ ایکسپرٹ بنی جن کا تعارف ’ہو از ہو‘ میں کرایا گیا۔ زبیدہ آپا نے پاکستان میں کھانے پکانے کو باقاعدہ فن کے طور پر متعارف کرایا۔ اکثر جب بجیا کے گھر اُن کے سب بہن بھائی اکھٹے ہوتے تو خاص طور پر انور مقصود اور چھوٹے بھائی عامر مقصود اپنی چھوٹی بہن زبیدہ کو خوب تنگ کرتے۔

انور مقصود زبیدہ آپا کی ترکیبوں پر چھیڑتے اور عامر مقصود بہن کی چوڑیوں اور سجنے سنورنے کے شوق پر بچپن کے قصے سنا کر خوب لطف لیتے، صاف نظر آتا کہ ’گھر کی مرغی دال برابر‘ کیا جا رہا ہے، تنگ آکر زبیدہ آپا بھی کہہ دیتیں کہ بھئی ہم تو ہانڈی پکانے والے لوگ ہیں۔

ویڈیو: ماہر امور خانہ داری زبیدہ طارق 72 برس کی عمر میں انتقال کرگئیں

زبیدہ آپا کے ٹوٹکوں کے پیچھے چھپے ایک خاندانی راز سے تو میں بھی واقف ہوں۔ یہ نہایت ضخیم ایک غیر معمولی بڑی ڈائری تھی، جوکہ بجیا کے نانا سید نثار احمد کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تھی۔ اس ڈائری میں معروف حکیموں، طبیبوں سے ملاقات کا احوال، شاعروں کے قصے، قدیمی نسخے، طبِّ نبوی، مجرب دعائیں، با معنی خواب اور نجانے کیا کچھ درج تھا۔

اِسی ڈائری میں ہزارہا گھریلو ٹوٹکے بھی درج تھے جو کہ ذاتی تجربات کے بعد قرطاس پر اُتارے گئے تھے۔ ایسے ہی زبیدہ آپا کے نانا کی ایک ڈائری اُن کی شاعری اور ایک ڈائری پاشی یعنی زبیدہ آپا اور بجیا کی امّی کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تھی۔ اِس ڈائری میں سینکڑوں کے حساب سے ایسی پہیلیاں درج تھیں کہ جن کو بوجھنے میں کئی عقل کی باتیں سمجھ میں آجائیں۔

زبیدہ آپا کسی بڑی ڈگری کی حامل نہیں تھیں، مگر پورے وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ حمیدی خاندان کا اثاثہ، یہ ہاتھ سے لکھی ڈائریاں کسی مکتب سے کم بھی نہیں تھیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

zahra Jan 06, 2018 10:20am
best article thanks for sharing it here its very informative and very interesting you wrote it like a story no doubt she is a great women great mother great friend their mother no doubt trained all her kids very well anwar maqsood suraiya bhajiya and zubaida apa all of them are complete and perfect people of this century hats off to them people like these and i have no words for them they are no doubt mind blowing may her soul rest in peace ameen