کراچی: سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے کہا کہ پاکستان امریکا کے ساتھ جہاں تک ممکن ہوسکے گا تعلقات برقرار رکھے گا کیونکہ امریکا نہ صرف عالمی طاقت ہے بلکہ خطے میں اپنی موجودگی رکھتا ہے اور وہ ہمارے لیے یہ تقریباً ہمارا ہمسایہ ہی ہے۔

انسٹیٹوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کے مسائل پر لیکچر دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہمیں امریکا کی جانب سے ہونے والی تمام بیان بازی پر ردعمل جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔

ایک سوال کے جواب میں سیکریٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یکم جنوری کا ٹوئٹ ان کا اپنا ذاتی بیان یا پھر کسی وجہ کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے۔

آئی بی اے کے دورے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ دفتر خارجہ کو اپنے دفتر سے نکل کر لوگوں سے بات کرنے کی ضرورت ہے، انہوں نے کہا کہ جب ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹوئٹ کے ذریعے احمقانہ بات کی تو خاص طور پر میں نے یہاں آنے کا فیصلہ کیا۔

مزید پڑھیں: امریکا نے پاکستان کا نام ’خصوصی واچ لسٹ‘ میں ڈال دیا

عالمی اور علاقائی ماحول کے بارے میں بات کرتے ہوئے تہمینہ جنجوعہ نے اس بات کی نشاندہی کی کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد ’سب سے پہلے امریکا‘ کا نعرہ سامنے آیا تھا، انہوں نے کہا کہ یکم جنوری کے ٹوئٹ کے پیچھے مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں اور ہم اس ٹوئٹ کا جائزہ لے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انہیں کسی نے متحرک کیا ہے کیوں کہ ہم یکم جنوری کے ٹوئٹ سے قبل امریکی حکام جنرل میٹس سے ہونے والی مثبت ملاقات کو نہیں بھول سکتے۔

تہمینہ جنجوعہ نے کہا کہ یکم جنوری کو 2 ٹوئٹ کے ذریعے سال نو کا تحفہ دیا گیا، جس میں ایک ٹوئٹ پاکستان اور دوسرا ایران کے بارے میں تھا جبکہ صبح کے 4 بجے امریکی صدر پاکستان اور ایران کے بارے میں کیا سوچ رہے تھے؟

انہوں نے کہا کہ ایران میں کچھ بھی ہورہا تھا لیکن پاکستان کے حوالے سے ٹوئٹ ایک سوالیہ نشان ہے۔

سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ خطے میں بھارت کو سیکیورٹی فراہم کنندہ کا کردار دیے جانے، سرحدی انتظامی مسائل، 2017 کی امریکا کی غیر مثبت قومی سلامتی کی حکمت عملی کے بارے میں کابینہ کی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس صورتحال کی ایک وجہ چین کی اقتصادی اور فوجی طاقت کا ابھرنا تھا جو امریکا کے غلبے کے لیے چیلنچ کے طور پر سمجھا جاتا تھا۔

پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہا افغانستان میں بھارت اور امریکا کا گٹھ جوڑ بہت زیادہ ہے اور ان کے پاس افغانستان میں بہت سے مقامات بھی ہیں، لہٰذا جب انہوں نے پاکستان میں پناہ گاہوں کی بات کی تو ہم نے اپنے امریکی دوستوں کو بتایا کہ پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کی کوئی منظم موجود گی نہیں ہے اور اگر امریکا کے پاس کوئی معلومات ہے تو انٹیلیجنس کی بنیاد پر ہم اس معاملے کو حل کرسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کے برعکس پاکستان نے افغانستان میں موجود پناہ گاہوں جو پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے ان پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ پاکستان، روس کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بہت مطئمن ہے۔

لیکچر کے دوران پاکستان کے پاس موجود مواقع کو نشاندہی کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہمیں علاقائی تنظیموں کی رکنیت کے ساتھ علاقائی اور عالمی تعلقات کو بڑھانا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا نے پاکستان کی سیکیورٹی امداد روک دی

انہوں نے کہا کہ پاکستانی کی موجودہ خارجہ پالیسی کا مرکز چین کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات کا فروغ، افغانستان کے ساتھ امن کا فروغ، افغان مہاجرین کی عزت کے ساتھ واپسی، افغانستان کے ساتھ سرحدی انتظام، بھارت کے ساتھ جامع مذاکرات میں اصولی موقف کو برقرار رکھنا و دیگر چیزیں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور چین ایک دوسرے کے ساتھی ہیں اور پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) پاکستان میں صنعتی ترقی کا راستہ ہے۔


یہ خبر 07 جنوری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں