عسکری ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کابل کے مشرقی حصے میں افغان متوسط گھرانوں کے نوجوانوں کی شدت پسند تنظیم داعش میں شمولیت سے تنظیم کو تقویت مل رہی ہے جو مسقتبل میں دارالحکومت کو خون ریز خطے میں بدل سکتی ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق داعش نے طالبِ علموں، پروفیسروں، دکانداروں کے تعاون سے افغان فوج اور امریکی سیکیورٹی فورسز کے خلاف افغانستان میں گزشتہ 18 مہینوں میں 20 خون ریز حملے کیے۔

واشنگٹن میں ولسن سینٹر کے تجزیہ کار مائیکل کیوگلنگ نے واضح کیا ’افغانستان کے مشرقی حصہ میں موجود وہ محض ایک گروہ نہیں بلکہ نرسری ہے جہاں سے افغانستان کے دارالحکومت پر انتہائی پُرخطر حملے ہو سکتے ہیں اور اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا’۔

یہ پڑھیں: 'امریکا کی موجودگی میں افغانستان میں داعش کیسے آئی'

افغانستان اور پاکستان میں مشرق وسطیٰ کا داعش خراسان گروپ (آئی ایس۔ کے) 2014 میں ابھر کے سامنے آیا جس میں پاکستان، افغانستان اور وسطیٰ ایشیا کے ناراض یا متنفر طالبان اور دیگر انتہاپسندوں نے داعش میں شمولیت اختیار کرلی۔

خیال رہے کہ شدت پسند تنظیم داعش نے افغان دارالحکومت کابل میں پہلا دہشت گرد حملہ 2016 میں کیا تھا۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ داعش کے لیے نئی بھرتیوں کی کمی نہیں، اس نے افغانستان میں انتہاپسندی پر مشتمل لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے جو صدویوں سے خطے میں آباد ہیں۔

انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے سینئر تجزیہ کار براہم اسامہ نے واضح کیا ‘ہم ایسے گروپ کی داعش میں شمولیت کے بارے میں بات رہے ہیں جسے مختلف تشدد اور انتہاپسندانہ کارروائیوں کے لیے تیار کیا گیا ہے’۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں داعش کا اثر بڑھ رہا ہے: رپورٹ

انہوں نےکہا کہ’جہاد’ کی چھتری کے نیچے جو نظریات پنپ رہے ہیں اور جس کی بھاگ دوڑ نوجوان نسل کے ہاتھ میں ہے وہ انتہائی خون ریزی پر مشتمل ہے۔

داعش کے حمایتی اور ممبران کابل کی فضا میں اپنے خاندان کے ہمراہ رہائش پذیر ہیں جو ناصرف یونیورسٹی جاتے ہیں بلکہ آزادنہ گھومتے پھرتے ہیں۔

یہ لوگ رات کی تاریکی میں مل کر بیٹھتے ہیں اور اپنے اہداف پر بحث و مباحثہ کرتے ہیں اور جن شہروں کے بارے میں باخوبی واقف ہیں وہاں حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں، اس کے علاوہ وہ علاقے میں سیکیورٹی کے حوالے سے ہونے والی تبدیلیوں پر بھی نظر رکھتے ہیں جو واضح طور پر گزشتہ برس مئی میں ہونے والے ٹرک بم دھماکے کی وجہ سے دیکھنے میں آئی تھی۔

مزید پڑھیں: 'پاکستان میں گزشتہ سال 956 افراد دہشت گردی کا نشانہ بنے'

ایک مغربی سفارتکار نے بتایا کہ داعش سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد ایک منظم طریقے سے انسدادِ دشت گردی کے اقدامات کا مقابلہ کر رہے ہیں اور گزشتہ برس مئی سے دسمبر تک مختلف قسم کے چھوٹے دہشت گرد حملے دیکھنے میں آئے ہیں۔

واضح رہے کہ افغان سیکیورٹی ذرائع نے انکشاف کیا تھا کہ کابل میں 20 سے زائد داعش خراسان سیل کام کررہے ہیں۔

دوسری جانب افغانستان میں شرپسند نیٹ ورک کے تجزیہ کار عثمان نے بتایا کہ کابل میں داعش کی تعداد کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہے لیکن سوشل میڈیا سمیت جامعات، اسکولوں اور مساجد سے نوجوان کی بھرتی کا عمل جاری ہے۔


یہ خبر 11 جنوری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں