مصر میں فائرنگ سے 51 مظاہرین ہلاک، اخوان
قاہرہ:صر کے معزول صدر محمد مرسی کے حامیوں کے دھرنے میں سیکورٹی فورسز کی کارروائی سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 51 ہوگئی ہے جبکہ سینکڑوں زخمی ہیں۔
پیر کو قاہرہ میں ریپبلکن گارڈزکے ہیڈ کواٹرز کے قریب فائرنگ میں بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کے بعد اخوان المسلمون نے عوام سے اٹھ کھڑے ہونے کی اپیل کی ہے۔
اخوان المسلمون نے مصر میں شام کی طرز پر جاری خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہونے سے روکنے کے لیے عالمی برادری سے بھی مداخلت کرنے کو کہا ہے۔
اسلامی تنظیم کا کہنا ہے کہ مرسی کے حامی صبح نماز ادا کر رہے تھے کہ پولیس اور فوج نے ان پر گولیاں اور آنسو گیس کے شیل برسائے۔
اخوان کے سیاسی بازو “فریڈم اینڈ جسٹس” پارٹی نے مصری عوام سے ٹینکوں کے ذریعے ان کے انقلاب کو چوری کرنے والوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی اپیل کی ہے۔
پارٹی نے عالمی برادری، دنیا بھر کے گروپس اور لوگوں پر بھی زور دیا ہے کہ وہ مزید خون خرابہ اور عرب دنیا میں نئے شام بننے سےروکنے کے لیے مداخلت کریں۔
اس سے پہلے، مصری فوج نے کہا کہ ‘مسلح دہشت گردوں’ نے ری پبلکن گارڈز کے صدر دفتر میں گھسنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں ایک سیکورٹی افسر ہلاک جبکہ چھ شدید زخمی ہو گئے۔
پولیس کی جانب سے علاقے کے مکمل محاصرے کی وجہ سے صحافیوں کی ریپبلکن گارڈز کے ہیڈ کواٹرز تک رسائی ممکن نہیں۔
مظاہرین نے اے ایف پی کو بتایا کہ فوجیوں اور پولیس نے انہیں منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل برسائے اور ہوائی فائرنگ بھی کی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ سیکیورٹی اہلکار غیر معینہ مدت تک دھرنا دینے کا تہیہ کیے ہوئے مظاہرین کو منتشر کرنا چاہتے تھے۔
احتجاج کرنے والے ایک شخص محمود الشیلی نے سیکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے ہوائی فائرنگ کی تصدیق کی اور کہا کہ عام کپڑوں میں ملبوس ایک گروپ نے مظاہرین پر دھاوا بول دیا۔
الشیلی کے مطابق ریپبلکن گارڈز نے ہوائی فائرنگ کی جبکہ غنڈوں کا گروپ ایک جانب سے نمودار ہوا اور ان کا ہدف مظاہرین ہی تھے۔
خیال رہے کہ جمعہ کو اسی مقام پر فوجیوں کی فائرنگ سے مرسی حامی مظاہرین میں سے چار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
حالیہ کچھ دنوں سے اخوان المسلمون کے کارکن اور حامی قاہرہ کے مختلف علاقوں میں مرسی کے دفاع کے لیے متحرک ہیں۔
پچھلے بدھ کو بڑے پیمانے پر مظاہروں کے بعد فوج نے مرسی حکومت کو برطرف کر دیا تھا۔
یاد رہے کہ مرسی مصر کے پہلے جمہوری صدر تھے جنہیں عوام نے پچھلے سال ہی اقتدار تک پہنچایا تھا۔
مرسی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد ملک میں اب تک حالات پر قابو نہیں پایا جاسکا اور نہ ہی عبوری وزیر اعظم نامزد ہوا ہے۔
اس سے قبل بائیں بازو کی تنظیموں کے اتحاد لبریشن سالویشن فرنٹ کے رہنما محمد البرادی کی بطور عبوری وزیر اعظم کی تعیناتی کا اعلان کیا گیا تھا لیکن بعض جماعتوں کے تحفظات کی وجہ سے اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔
دوسری طرف، روس کے صدر ولادیمر پیوٹن نے کہا ہے کہ مصر بھی شام کی طرح خانہ جنگی کی راہ پر چل نکلا ہے۔ پی ٹی وی کے مطابق قزاقستان کے صدر نور سلطان نذر بایوف کے ساتھ ملاقات میں روسی صدر نے کہا کہ ماسکو کو مصر کے حالات پر تشویش ہے اور ان کی درخواست ہے کہ مصر کے عوام شام کے حالات سے سبق سیکھیں۔