کراچی: افغان حکومت کے عہدیداروں نے استنبول میں طالبان کے نمائندوں سے غیر سرکاری ملاقات کی، جس میں امن مذاکرات کے لیے نیا راستہ اپنانے کے طریقہ کار پر بحث کی گئی۔

وائس آف امریکا اور دیگر خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق اس اجلاس کو ترک حکومت کے تعاون سے منعقد کرایا گیا۔

رپورٹس میں کہا گیا کہ اجلاس کے شرکاء میں قطر میں قائم طالبان کے دفتر کے حکام اور حزب اسلامی افغانستان سمیت دیگر مسلح تنظیموں کے ممبران نے شرکت کی۔

مزید پڑھیں: افغان حکومت اورطالبان میں ’خفیہ مذاکرات‘

حزب اسلامی افغانستان کے ترجمان محمد نادر افغان نے اپنی تنظیم کی جانب سے اجلاس میں شرکت کی خبروں کی تصدیق کی جبکہ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنی تنظیم کی استنبول اجلاس میں شرکت کی خبروں کی تردید کی۔

ایک خبر رساں ادارے کے مطابق طالبان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم نے نہ ہی اپنا وفد بھیجا اور نہ ہی اسلامی امارات کے کسی نمائندے نے اجلاس میں شرکت کی، اس طرح کے جھوٹے دعوے خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے کیے جاتے ہیں، جو جہاد کو روکنا چاہتی ہیں۔

واضح رہے کہ اس اجلاس کے حوالے سے افغان حکومت کی جانب سے بھی کوئی سرکاری بیان سامنے نہیں آسکا۔

یہ بھی پڑھیں: ’طالبان کے حوالے سے افغان حکومت کی سوچ مبہم‘

خیال رہے کہ استنبول میں یہ اجلاس ایسے وقت میں ہوا ہے جب اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا وفد کابل میں افغان حکام سے جنگ زدہ ملک میں سیکیورٹی اور سیاسی امور پر بات کے لیے موجود ہے۔

اس سے قبل افغان میڈیا کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ انٹرا افغان امن مذاکرات کو استنبول میں منعقد کیا جائے گا جس کے ذریعے افغانستان میں دہائیوں پرانے تنازع پر مذاکرات کیے جائیں گے۔

علاوہ ازیں میڈیا میں یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ ترک حکومت، طالبان کو ملک میں اپنا سیاسی دفتر کھولنے پر زور دے رہی ہے۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 15 جنوری 2018 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں