پشاور: رواں مہینے قومی اسمبلی میں سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کا دائرہ کار وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) تک بڑھانے کا بل 2017 اکثریت سے منظور ہونے کے بعد قانونی ماہرین نے حکومت کی نیت پر شکوک و شبہات کا اظہار کردیا۔

ابھی فاٹا ترمیمی بل سینیٹ میں پیش کیا جانا ہے جس کی منظوری کی صورت میں بل کو صدر پاکستان کے دستخط کے ساتھ ہی ترمیمی بل آئین کا حصہ بنا دیا جائے گا۔

قانونی ماہرین نے فاٹا قانون میں متعدد نقائص کی جانب اشارہ کیا کہ قبائلی علاقوں میں فاٹا قانون کی عملداری کا تعلق وفاقی نوٹیفکیشن سے مشروط ہوگا۔

یہ پڑھیں: ‘صرف کورٹ کا دائرہ کار ہی نہیں، فاٹا اصلاحات پیکج مکمل نافذ کیا جائے‘

اسی دوران فرینئٹیر کرائم ریگولیشن (ایف سی آر) میں ترمیم کے بغیر ہی کورٹ کا دائرکار فاٹا تک بڑھانے سے کئی قانونی پیچیدگیاں جنم لیں گئیں کیوں کہ ایف سی آر کے تحت منفرد جوڈیشل فورمز ہوتے ہیں جو خیبرپختونخوا یا کسی دوسرے صوبوں کے مقابلے میں مختلف ہیں۔

خیال رہے کہ ایف سی آر قانون کے تحت سول اور کرائم کیسز میں جرگے کی سفارشات کی روشنی میں پولیٹیکل ایجنٹ اپنا فیصلہ سناتے ہیں۔

سرکاری ذرائع نے بتایا کہ ایف سی آر کو ختم کرنے کے لیے ترمیمی بل میں سن سیٹ کلاز کو ڈالا جائے گا لیکن یہ مذکورہ شق کو ترمیمی بل میں شامل ہی نہیں کیا گیا۔

سابق ممبر قومی اسمبلی اور سینئر وکیل عبدالطیف آفریدی نے کہا کہ ‘ایسا لگتا ہے کہ قبائلی لوگوں کے ساتھ دھوکا ہو رہا ہے، عدالتوں کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھا دیا لیکن عدالتی نظام و طریقہ کار واضح نہیں کیا جو یقیناً لوگوں کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے’۔

یہ بھی پڑھیں: عدالتوں کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھانے کا بل قومی اسمبلی سے منظور

ان کا کہنا تھا کہ سول کورٹ آرڈینس 1962 میں توسیع کیے بغیر فاٹا میں عدالتی نظام برطانوی نو آبادیات والا ہی رہے گا۔

انہوں نے بتایا کہ قبائلی علاقوں میں سول اور کرائم کیسز میں ایف سی آر کے تحت پولیٹیکل ایجنٹ اور اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ ہی جوڈیشل آفیسر ہوتا ہے جو جرگے کی سفارشات کی روشنی میں اپنا فیصلہ سناتا ہے۔

فاٹا ترمیمی بل کے سیکشن 1 شق 2 میں تحریر ہے کہ فاٹا میں قانون کا اطلاق اس تاریخ کو ہوگا جب وفاقی حکومت کی جانب سے آفیشل گزیٹڈ میں نوٹیفکیشن شائع ہوگا۔

مزید پڑھیں: حکومت کا فاٹا میں ایف سی آر کو ایک ہفتے میں ختم کرنے کا اعلان

فاٹا وکلا فورم کے مرکزی صدر اعجاز مہمند نے بتایا کہ فاٹا بل پاس ہونے کے باوجود فاٹا ترامیمی بل میں مذکورہ شق سے واضح ہے فاٹا کے لوگ وفاقی حکومت کے رحم و کرم پر ہی رہیں گے۔

پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر عبدالطیف آفریدی نے عندیہ دیا کہ ایک مرتبہ پھر فاٹا ترامیمی بل پارلیمنٹ کا حصہ بنایا جائے، وہ ایف سی آر کے کالا قانون کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے۔

عبدالطیف آفریدی نے وضاحت کی کہ فاٹا کی طرح پاٹا میں بھی کورٹ کے دائرکار سے باہر تھے لیکن ایکٹ 1973 کے تحت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کا دائرکار کو بڑھاتے ہوئے 9 فروری 1973 میں آفیشل گزیٹڈ میں شائع ہوا جس کے بعد چترال، دیر، سوات، ملاکنڈ اور قلات تک سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے دائرہ کار میں توسیع دی گئی۔


یہ خبر 15 جنوری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں