چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے ملک کی تمام یونیورسٹیوں کو نئے لاء کالجز کے الحاق سے روک دیا اور ساتھ ہی ملک بھر کے تمام ماتحت عدالتوں اور ہائی کورٹس کو کیس پر حکم امتناعی جاری کرنے سے روک دیا۔

سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں غیر میعاری لاء کالجز سے معتلق از خود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے لاء کالجز کی صورتحال سے متعلق وائس چانسلرز کو بیان حلفی جمع کروانے کا حکم جاری کردیا۔

مزید پڑھیں: چیف جسٹس کی سپریم کورٹ لاہور رجسٹری آمد، 6 ازخود نوٹس

سماعت کے دوران لاء کالجز کی ریفارمز کے لئے معروف قانون دان حامد خان کی سربراہی میں کمیٹی قائم کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ادارے قائم رہنے چاہیے، شخصیات تو آتی جاتی رہتی ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہمیں ایسے وکیل پیدا نہیں کرنے جو صبح پان کی دوکان چلاتے ہوں اور بعد میں ڈگری حاصل کر لیں۔

انہوں نے معیاری قانون کی پڑھائی کا ملک میں 6 ہفتوں میں نفاذ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ 'این ٹی ایس کا کیا فائدہ جہاں نقل کر کے امتحان دیا جاتا ہو'۔

یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس کا کراچی کے سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار کا نوٹس

چیف جسٹس نے یونیورسٹیز سے الحاق کیے گئے لا کالجز سے متعلق رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا کہ سمجھ نہیں آتی کہ ملک میں اتنی پرائیوٹ یونیورسٹیاں کھل کیسے گئیں؟

خیال رہے کہ سال نو کے آغاز میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سپریم کورٹ کا ایجنڈا برائے 2018 کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت اب انسانی حقوق کے مسائل پر توجہ دے گی، جس میں خصوصی طور پر عوام کے لیے معیاری تعلیم اور صحت کے مسائل شامل ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں