جامعہ کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیوایم) لندن کے مرحوم رہنما ڈاکٹر حسن ظفر کے تعزیتی اجلاس میں شریک صحافی فواد حسن کو 'سادہ لباس افراد' نے اٹھا لیا تاہم ایک گھنٹے بعد رہا کردیا گیا۔

ایکسپریس ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق ان کے صحافی فواد حسن کو ایک گھنٹے پوچھ گچھ کے بعد رہا کردیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق انھوں نے کہا کہ 'صحافیوں کے ساتھ براسلوک نہیں کرنا چاہیے'۔

فواد حسن نے پوچھ گچھ کے حوالے سے کوئی بیان نہیں دیا تاہم دیگر صحافیوں کی جانب سے اس معاملے پر کچھ تفصیلات دی گئی ہیں۔

مقامی صحافی نے ٹویٹر میں اپنے پیغام میں کہا کہ ' انھوں نے فواد حسن کو تشدد کے بعد رہا کردیا اور اس طرح کے سمینارز کی کوریج نہ کرنے کی دھمکی دی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'انھوں ںے یہ بھی کہا کہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں ان کے فون کال کو ریکارڈ کررہی ہیں اور اگر انھوں نے تفتیش کے حوالے سے کچھ کہا تو وہ انھیں دوبارہ اٹھائیں گی'۔

خیال رہے کہ پاکستان میں لوگوں کو زبردستی غائب کرنے کے واقعات کو خطرے کی علامت تصور کیا جارہا ہے جو وقتاً فوقتاً پیش آتے رہتے ہیں۔

ورلڈ پریس فریڈم نے 2017 میں پاکستان کو صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ممالک میں شامل کیا تھا جہاں پاکستان 180 ممالک کی فہرست میں 139 ویں نمبر پر تھا۔

قبل ازیں 10 جنوری کو اسلام آباد میں صحافی طحہ صدیقی کو اغوا کرنے کی ناکام کوشش کی گئی تھی جہاں 10 سے 12 مسلح افراد نے ان کی گاڑی کا پیچھا کرتے ہوئے اغوا کی کوشش کی تھی۔

اکتوبر 2017 میں دو برس قبل لاپتہ ہونے والی خاتون صحافی زینت شہزادی اپنے گھر واپس آگئی تھیں۔

لاپتہ افراد کے لیے قائم کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے زینت شہزادی کی واپسی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھیں پاک-افغان سرحد کے قریب سے بازیاب کروادیا گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں