لاہور: زینب قتل کیس میں پولیس اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی جانب سے پیش کردہ ‘اصل ملزم’ کو ڈی این اے ٹیسٹ نے بے قصور ثابت کردیا، جس کے بعد قاتل کی تلاش میں سرگرداں جے آئی ٹی زینب قتل کیس میں ایک مرتبہ پھر اندھیری گلی میں آ کھڑی ہوئی ہے اور اس کے پاس ملزم کا کوئی سراغ نہیں۔

پولیس نے 23 سالہ عمر فاروق کو حراست میں لیا تھا جس کے بارے میں پولیس کو یقین تھا کہ وہ ہی زینب قتل کیس کا اصل ملزم ہے تاہم پیر کو آنے والی ڈی این اے رپورٹ نے عمر فاروق کو بے قصور ثابت کردیا۔

معاملے کی تحقیقات کے لیے حکومت پنجاب کی جانب سے تشکیل کردہ جے آئی ٹی نے مشتبہ ملزم کے ڈی این اے کے نمونے ایک ہفتہ قبل پنجاب فارنسک سائنس ایجنسی میں بھیجے تھے۔

جے آئی ٹی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی (پی ایف سی اے) نے پیر (23 جنوری) مشتبہ شخص عمر فاروق کی زینب قتل کیس میں تصدیق نہیں کی۔

یہ پڑھیں: سینیٹ کمیٹی کی بچوں سے زیادتی کے مجرموں کو پھانسی کی تجویز

ذرائع کے مطابق پنجاب پولیس کے اعلیٰ عہدیدار زینب قتل کیس میں بڑی کامیابی کی امید لگائے بیٹھے تھے کیونکہ مشتبہ شخص نے دوران تفتیش ‘اپنے جرم کا اقرار’ کر لیا تھا۔

تفتیش کاروں میں شامل ایک اعلیٰ افسر نے ڈان کو بتایا کہ پولیس نے ایک ہفتے قبل لاہور کینٹونمنٹ کے علاقے میں ‘ایک بڑی کارروائی' کے دوران مشتبہ شخص کو حراست میں لیا تھا۔

مشتبہ شخص کی ‘گرفتاری’ مخبر کی اطلاع پر عمل میں آئی، مخبر نے اطلاع دی تھی کہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں زنیب کے ساتھ جو شخص ہے اس سے مماثلت رکھنے والا ایک شخص بھٹہ چوک کے پاس موجود ہے، جس کے بعد پولیس نے بھاری نفری کے ساتھ چھاپہ مار کر مشتبہ شخص سمیت متعدد افراد کو حراست میں لیا۔

یہ بھی پڑھیں: زینب قتل کیس: عدالت میں ڈی جی فرانزک اور پولیس کی رپورٹ پیش

بعدازاں مشتبہ شخص کو نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا تھا جہاں اعلیٰ افسران نے اس سے تفتیش کی۔

اس ضمن میں بتایا گیا کہ ساوتھ کینٹ پولیس اسٹیشن افسر (ایس ایچ او) نے مشتبہ شخص کو اعلیٰ افسران کے حوالے کرنے سے قبل ہی اعترافی بیان بھی حاصل کرلیا تھا۔

ایس ایچ او نے اپنی رپورٹ میں حوالہ دیا کہ مشتبہ شخص عمر فاروق کی خالہ نے اس کے فون پر رابطہ بھی کیا تھا۔

پولیس حکام کے مطابق ایس ایچ او کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ فون پر ہونے والی دونوں گفتگو میں زینب کے اغوا اور زیادتی کا ذکربھی شامل تھا۔

مزید پڑھیں: قصور کے 300 مشتعل مظاہرین کے خلاف 2 مقدمات کا اندراج

دوران تفتیش، لاہور پولیس آفیسر کو معلوم ہوا کہ مشتبہ شخص بھٹہ چوک کا رہائشی ہونے سے قبل زینب کے محلے میں رہتا تھا۔

تفتیشی شواہد سامنے آنے سے شک کو تقویت مل رہی تھی کہ مشتبہ شخص ہی جرم میں مبتلا ہے۔

لاہور پولیس نے ‘بڑی کامیابی’ تصور کرتے ہوئے مشتبہ شخص کو انتہائی سخت سیکیورٹی میں مزید تفتیش کے لیے قصور پولیس کے حوالے کردیا جہاں پہلے سے ہی جے آئی ٹی تحقیقات میں مصروف تھی۔

تاہم ڈی این اے کی منفی رپورٹ کے بعد پولیس کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی کے ممبران نے فیصلہ کیا ہے کہ مطلوبہ شخص کی گرفتاری کے لیے نئے سرے سے کام کرنا ہوگا.


یہ خبر 23 جنوری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں