پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رہنما اور سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا نے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی جانب سے زینب قتل کیس میں ملزم کی گرفتاری سے متعلق پریس کانفرنس کے دوران پولیس افسران کے لیے تالیاں بجانے کو ایک نامناسب عمل قرار دے دیا۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز آئی' میں گفتگو کرتے ہوئے شہلا رضا کا کہنا تھا کہ زینب سے قبل 11 معصوم بچیوں کے ساتھ اسی علاقے میں ریپ کیا گیا، لہذا شہباز شریف کو تالیاں بجانے کے بجائے ان واقعات پر افسوس کرنا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ 'جس پولیس کی پوری قوم کے سامنے تعریف کی گئی، یہ وہی پولیس ہے جو ڈھائی سال سے ملزم کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی، یہاں تک کہ زینب کی لاش ملنے کے بعد اسی نے 10 ہزار روپے بطور انعام مانگے تھے، ہم سمجھتے ہیں وزیراعلیٰ کو اہلکاروں کی تعریف نہیں سرزنش کرنی چاہیے تھی'۔

ان کا کہنا تھا کہ جس ملزم کو گرفتار کیا گیا ہے، اُسے پہلے رہا کردیا گیا تھا، جب یہی اصل ملزم تھا جس کو سیریل کلر کہا جارہا ہے تو پھر اسے کیوں چھوڑا گیا تھا؟۔

ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی نے کہا کہ 'ہمیں خوشی اُس وقت ہوتی جب وزیراعلیٰ براہِ راست اپنے اہلکاروں کو کہتے کہ ان کی غفلت کے باعث قصور میں 12 بچیوں کے ساتھ ایسے واقعات پیش آئے'۔

مزید پڑھیں: ’شہباز شریف کی پریس کانفرنس میں شرکا نے ہمارے آنسوؤں پر تالیاں بجائیں‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ واقعہ بھی قصور کے عوام اور سوشل میڈیا کے ذریعے اٹھایا گیا، ورنہ شاید زینب کا بھی کسی کو پتا نہ چلتا، کیونکہ وہاں پولیس کا کردار یقیناً شرمندگی کا باعث ہے۔

خیال رہے کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وزیراعلیٰ شہباز شریف نے پریس کانفرنس کے دوران زینب کے والد کی بات کاٹ دی تھی اور اچانک مائک بند کردیا تھا جبکہ وہ اس سے قبل خود صحافیوں کے سوالات کے جوابات دے رہے تھے۔

پریس کانفرنس کے دوران ہی ملزم کو گرفتار کرنے والی بات پر وہاں موجود شرکاء نے تالیاں بھی بجائی تھیں۔

یاد رہے کہ سوشل میڈیا پر ایک اور ویڈیو بھی وائرل ہوئی ہے جس میں دیکھا جاسکتا تھا کہ رانا ثنا اللہ مقتولہ کے والد محمد امین سے صرف ملزم کو سرِ عام پھانسی کے مطالبے تک محدود رہنے کا کہہ رہے تھے جبکہ انہیں دیگر مطالبات کو میڈیا کے سامنے لانے سے روک رہے تھے۔

قصور میں 6 سالہ زینب کا قتل

صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں 4 جنوری کو 6 سالہ بچی زینب کو اپنے گھر کے قریب روڈ کوٹ کے علاقے میں ٹیوشن جاتے ہوئے اغوا کرلیا گیا تھا۔

جس وقت زینب کو اغوا کیا گیا اس وقت اس کے والدین عمرے کی ادائیگی کے سلسلے میں سعودی عرب میں تھے جبکہ اہل خانہ کی جانب سے زینب کے اغوا سے متعلق مقدمہ بھی درج کرایا گیا تھا لیکن پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔

5 روز بعد 9 جنوری کو ضلع قصور میں شہباز خان روڈ پر ایک کچرے کے ڈھیر سے زینب کی لاش ملی تو ابتدائی طور پر پولیس کا کہنا تھا کہ بچی کو گلا دبا کر قتل کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: زینب قتل: 227 افراد سے تفتیش، 64 ڈی این اے ٹیسٹ کا مشاہدہ

بعد ازاں پولیس کی جانب سے بچی کا پوسٹ مارٹم بھی کرایا گیا تھا، جس کے بعد لاش کو ورثا کے حوالے کردیا گیا تھا تاہم یہ بھی اطلاعات تھی کہ بچی کو مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

اس واقعے میں شدت اس وقت دیکھنے میں آئی جب اہل علاقہ نے مشتعل ہو کر ڈی پی او آفس پر دھاوا بول دیا اور دروازہ توڑ کر دفتر میں داخل ہونے کی کوشش کی۔

اس موقع پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ بھی ہوئی تھی جبکہ پولیس کی جانب سے مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

10 جنوری کو بچی کے والدین عمرے کی ادائیگی کے بعد پاکستان پہنچے اور انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف سے ننھی زینب کے قاتلوں کو گرفتار کرکے انصاف فراہم کرنے کی اپیل کی۔

بعد ازاں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زینب کے گھر کا دورہ کیا اور متاثرہ خاندان سے ملاقات کر کے مجرموں کی جلد گرفتاری کی یقین دہانی کرائی تھی۔

علاوہ ازیں لاہور ہائی کورٹ نے واقعے کا از خود نوٹس لیا اور پولیس حکام کو طلب کیا تاہم ایک روز بعد ہی سپریم کورٹ نے زینب قتل کا از خود نوٹس لیا اور لاہور ہائی کورٹ کو کیس کی سماعت سے روز دیا تھا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے ہمراہ کیس کی سماعت کے لیے بینچ میں جسٹس عمر عطاء بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن بھی شامل ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

عبدالمجید Jan 25, 2018 10:38am
Well said .There was no justification to rejoice when the accused had already killed many girls. Clapping is tantamount to showing our callousness.