اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت نااہل قرار دینے کے معاملے پر آئینی و قانونی سوالات کا جائزہ لینے سے متعلق دائر درخواستوں پر سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف اور پاکستان تحریک انصاف کے سابق سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کو منگل 30 جنوری کو ذاتی حیثیت میں یا وکیل کے ذریعے پیش ہونے کے نوٹسز جاری کردیئے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے اس معاملے پر قانونی و آئینی جائزے سے اس ابہام کو ختم کرنے میں مدد ملے گی کہ آیا آئین کی اس شق کے تحت رکن اسمبلی کی نااہلی وقتی ہے یا اس کی مدت تاحیات ہے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس عمرعطاء بندیال، جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ کچھ ارکان پارلیمان کی جانب سے نااہلی کے خلاف دائر 17 درخواستوں پر سماعت کرے گا۔

مزید پڑھیں: مخدوم علی کا آرٹیکل 62 ون پر عدالت عظمیٰ کے معاون بنے سے انکار

سپریم کورٹ کے اسسٹنٹ رجسٹرار کی جانب سے یہ نوٹسز جاری کیے گئے، سابق وزیر اعظم نواز شریف کو سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری کے ڈپٹی رجسٹرار کے ذریعے نوٹس بھیجا گیا جبکہ اسلام آباد میں جہانگیر ترین کی رہائش گاہ پر نوٹس بھجوایا گیا۔

خیال رہے کہ آرٹیکل 62 (1)(ایف) کا معاملہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی کے بعد سامنے آیا جبکہ ان کی درخواست ایک سال سے سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے سامنے زیر التوا ہے۔

اس سے قبل یہ معاملہ سابق چیف جسٹس انور ظہر جمالی کے دور میں 15 دسمبر 2016 کو اٹھایا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: آرٹیکل 62 ون ایف کے ذریعے ہمیشہ کی نا اہلی پر سپریم کورٹ فیصلہ کرے گی

سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے اسی نوعیت کے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ آرٹیکل 62 اور 63 کی بنیاد پر کسی کو عمر بھر کے لیے انتخابات کا حصہ بننے سے نااہل کیسے کیا جاسکتا ہے؟

خیال رہے کہ اس سے قبل سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو 19 جون 2019 کو توہین عدالت پر آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت نااہل قرار دیا گیا تھا، تاہم ان کی نااہلی کی مدت 5 سال تھی۔


یہ رپورٹ 29 جنوری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں