ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم میں اس سال پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے شرکت کی اور وہاں بھارتی میڈیا کو انٹرویو دیا جس کے بعد پاکستانی ٹوئٹر صارفین نے انہیں سراہا۔

لوگ انٹرویو میں مختلف کے استعمال پر بات کرتے رہے۔

بلاشبہ بلاول بھٹو زرداری کا بھارتی صحافی کو دیا گیا انٹرویو متاثر کن ہے اور انہوں نے دہشتگردی کے سوالات کا رخ بدلا، کشمیر کا ذکر کیا، مگر بیشتر پاکستانی ٹوئٹر صارفین ان موضوعات کی بجائے پی پی پی چیئرمین کی انگلش سے زیادہ متاثر ہوئے۔

اور یہ ایک رجحان ہے کیونکہ کچھ ہفتے پہلے سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کا بھی ایک انٹرویو سوشل میڈیا پر گردش کرتا رہا اور انہیں 'ذہانت' سے جوابات دینے پر سراہا گیا۔

مگر یہاں سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہمارے سیاستدانوں کا معیار اتنا کم ہوچکا ہے کہ ہم اس وقت ان سے متاثر ہوجااتے ہیں جب وہ مشکل انگلش الفاظ استعمال کرتے ہیں؟

دلچسپ بات یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے ڈیووس میں ڈی ڈبلیو کو اردو میں انٹرویو دیا اور اس میں بھی انہوں نے وہی خیالات پیش کیے جو انگلش انٹرویو میں کیے تھے۔

مگر اس انٹرویو کو کسی نے بھی نہیں سراہا۔

یہ ٹھیک ہے کہ اس انٹرویو میں ان کی اردو کمزور نظر آئی مگر پیغام وہی تھا، تو کیا ہم اردو کے خلاف تعصب رکھتے ہیں جو اس انٹرویو کو نظرانداز کردیا؟ بظاہر تو ایسا ہی لگتا ہے۔

آخرکار یہاں پاکستان میں بلاول بھٹو زرداری کے سیاسی جلسوں کا مذاق ان کی اردو کی وجہ سے اڑایا جاتا ہے اور ہم ہی اس وقت پاکستانی کرکٹرز کا مذاق اڑاتے ہیں جب وہ درست انگلش بول نہیں پاتے، ایسا ہی کچھ میرا کے مذاق اڑانے کی وجہ بھی بنتا ہے۔

ہمیں سیاستدانوں کی انگلش بولنے کی صلاحیت سے متاثر ہونے کی بجائے ان کی انتخابی کارکردگی پر زیادہ توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔

یہاں آپ کچھ لوگوں کی آراءنیچے جان سکیں گے :

انگلش میں پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں