کراچی: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان ایک مرتبہ پھر اختلافات کا شکار ہو گئی ہے، رابطہ کمیٹی نے سربراہ فاروق ستار کے بغیر اجلاس کرکے پارٹی کے ڈپٹی کنوینئر کامران ٹیسوری کو کمیٹی سے نکال کے 6 ماہ کے لیے معطل کر دیا، بعد ازاں فاروق ستار نے ایک طویل پریس کانفرنس کرکے رابطہ کمیٹی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کا اجلاس بہادر آباد میں مرکزی دفتر میں ہوا، جس میں کمیٹی کے کئی سینئر ارکان شریک ہوئے، تاہم پارٹی کے سربراہ فاروق ستار اس اجلاس میں شریک نہیں تھے۔

رپورٹس کے مطابق اجلاس سے قبل فاروق ستار اور رابطہ کمیٹی کے سینئر اراکین میں سینیٹ کے انتخابات میں ٹکٹ دینے پر اختلافات ہوئے تھے جبکہ میڈیا نے فاروق ستار اور عامرخان کے درمیان تلخ جملوں کے تبادلے کے حوالے سے بھی رپورٹ کیا۔

سینیٹ الیکشن

مارچ میں سینیٹ کے انتخابات ہونے جا رہے ہیں، جس میں 54 اراکین ریٹائرڈ ہوں گے، جس میں ایم کیو ایم کے 4 ارکان نسرین جلیل, فروغ نسیم، طاہر مشہدی اور مولانا تنویر الحق تھانوی بھی شامل ہیں، ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے ان 4 اراکین کی جگہ 6 ناموں پر غور کیا تھا، جن میں نسرین جلیل، فروغ نسیم، امین الحق، عامر خان، شبیر قائم خانی اور کامران ٹیسوری شامل تھے۔

کامران ٹیسوری
کامران ٹیسوری

ایم کیو ایم رہنما کے اجلاس میں عامر خان نے کہا کہ وہ قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنا چاہتے ہیں، اس لیے وہ سینیٹ کا الیکشن نہیں لڑیں گے، بعد ازاں نسرین جلیل، فروغ نسیم، امین الحق کے نام پر تو اتفاق ہوا، تاہم فاروق ستار کامران ٹیسوری جبکہ رابطہ کمیٹی کے اراکین شبیر قائم خانی کو ٹکٹ دینا چاہتے تھے۔

کامران ٹیسوری کو ٹکٹ دینے یا نہ دینے کے معاملے پر فاروق ستار اور رابطہ کمیٹی کے اراکین میں اختلاف ہوا، جس پر فاروق ستار کے ناراض ہو کر گھر جانے کی خبریں سامنے آئیں، جبکہ رابطہ کمیٹی نے ایک پریس کانفرنس میں کئی اہم اعلانات کیے۔

کامران ٹیسوری رابطہ کمیٹی سے باہر

ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کی، جس میں عامر خان، خالد مقبول صدیقی، فیصل سبزواری، میئر کراچی وسیم اختر، نسرین جلیل، کنور نوید جمیل اور دیگر موجود تھے۔

پریس کانفرنس میں خالد مقبول صدیقی نے بتایا کہ فاروق ستار چاہتے تھے کہ دو ساتھی قربانی دیں، اور کامران ٹیسوری سینیٹ کے امیدوار بنائے جائیں۔

ایم کیو ایم کے سربراہ کی رائے پر بلاواسطہ تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ رابطہ کمیٹی سب سے بلند ہے، کسی شخص کو انفرادی طور پر فیصلے کرنے کا اختیار نہیں ہے جبکہ رابطہ کمیٹی کی اکثریت سے کیا گیا فیصلہ انفرادی طور پر تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

کامران ٹیسوری کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ایم کیو ایم کی تاریخ میں کبھی بھی کسی فرد کو مرکزی نظام میں فوری شامل نہیں کیا گیا لیکن فاروق ستار نے کامران ٹیسوری کو رابطہ کمیٹی میں شامل کیا جبکہ رابطہ کمیٹی کے اراکین اس کے شدید مخالف تھے۔

خالد مقبول صدیقی نے بعد ازاں کامران ٹیسوری کو رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینئر کے عہدے سے ہٹانے کا اعلان کیا جبکہ انہیں 6 ماہ کے لیے معطل کرنے کا بھی بتایا، تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ رابطہ کمیٹی میں انہوں نے ایسا کیا کیا کہ ان کو معطل کیا گیا ہے۔

فاروق ستار کا رابطہ کمیٹی کو معطل کرنے کا اعلان

رابطہ کمیٹی کی پریس کانفرنس کے بعد فاروق ستار نے پی آئی بی میں اپنے گھر کے باہر میڈیا سے طویل گفتگو میں کہا کہ رابطہ کمیٹی نے غیر آئینی اجلاس منعقد کیا، جیسا کہ یہ اجلاس پارٹی کے سربراہ کی اجازت کے بغیر ہوا جبکہ میڈیا سے گفتگو بھی پارٹی کے طریقہ کار کے خلاف تھا۔

فاروق ستار نے کہا کہ میں نے کنور نوید جمیل کو فون کرکے منع کیا تھا کہ اجلاس منقعد نہ کریں، اور سرکلر بھی ارسال کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب اجلاس اور پریس کانفرنس خلاف قانون تھے، تو اس اجلاس میں کیا گیا فیصلہ بھی غیر آئینی تھا۔

فاروق ستار نے پریس کانفرنس میں اپنی خدمات کا تذکرہ کیا جبکہ انہوں نے کے ایم سی گراؤنڈ میں کارکنان کے اجلاس میں کرکے رابطہ کمیٹی کے فیصلے پر عام کارکنان کی رائے لینے کا اعلان کیا۔

انہوں نے کہا کہ وہ کٹھ پتلی سربراہ نہیں بن سکتے، وہ بااختیار سربراہ بننا چاہتے ہیں، جس کے لیے وہ کارکنان سے رائے لیں گیا۔

فاروق ستار نے ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کا اجلاس کرنے والے اراکین کو معطل کرنے کا اعلان بھی کیا۔

ایم کیو ایم کے سربراہ نے کہا کہ رابطہ کمیٹی کے اراکین کو اجلاس منع کیا گیا تھا، انہوں نے اجلاس کیسے کیا، اجلاس، اس میں فیصلے اور میڈیا سے کی گئی گفتگو غیر آئینی تھی۔

ایم کیو ایم میں اختلافات

متحدہ قومی موومنٹ مارچ 2015 سے مشکلات کا شکار ہے، پہلے ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر چھاپہ مارا گیا، جہاں سے نیٹو کا اسلحہ برآمد کرنے کا دعویٰ کیا گیا، بعد ازاں ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی نبیل گبول نے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا اور پارٹی پر کئی الزامات لگائے۔

اسی سال قائد ایم کیو ایم اطلاف حسین نے پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی صوبے کے طویل ترین گورنر رہنے والے عشرت العباد کو پارٹی سے نکالنے کا اعلان کیا، ستمبر 2015 میں پارٹی کے سربراہ الطاف حسین کی اشتعال انگیز تقاریر کو عدالتی حکم پر نشر کرنے پر پابندی لگ گئی، دسمبر 2015 میں الطاف حسین کے خلاف لندن میں قتل ہونے والے عمران فاروق کے قتل کا مقدمہ درج ہوا۔

مارچ 2016 میں ایم کیو ایم کو سب سے بڑا دھچکا لگا، جب ایم کیو ایم کے کراچی کے سابق ناظم مصطفیٰ کمال نے الگ جماعت پاک سرزمین پارٹی بنائی، جس میں ایم کیو ایم کے کئی اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی شامل ہوئے۔

اگست 2016 میں پارٹی کے بانی الطاف حسین نے پاکستان مخالف نعرے لگوائے، جس کے بعد ایم کیو ایم نے الطاف حسین کو پارٹی سے نکالنے کا اعلان کیا جبکہ فاروق ستار نے متحدہ کی قیادت سنبھال لی۔

اگست 2017 میں ایم کیو ایم نے ایک آل پارٹیز کانفرنس کا اعلان کیا، جس میں صرف پاک سرزمین پارٹی اور مہاجر قومی موومنٹ نے شرکت کی یقین دہانی کروائی، باقی کسی جماعت نے شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا، جس پر یہ کانفرنس منسوخ کر دی تھی۔

نومبر 2017 میں ایم کیو ایم اور پی ایس پی میں اتحاد کے حوالے سے فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال کی طویل پریس کانفرنس ہوئی تاہم اس کے اگلے روز ہی اس کے خلاف باتیں سامنے آئیں حتیٰ کہ فاروق ستار نے بعد میں پارٹی اور سیاست چھوڑنے کا اعلان کیا، تاہم اسی دن ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے انہیں منا لیا تھا جبکہ ایم کیو ایم اور پی ایس پی کا یہ اتحاد بھی ختم ہو گیا۔

اب سینیٹ کے انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم پر ایک بات فاروق ستار اور رابطہ کمیٹی میں اختلافات سامنے آئے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Feb 06, 2018 06:04pm
سینیٹر کے ٹکٹ کارکنوں کو ملنے چاہیے، ڈیفنس یا گلشن میں رہنے والوں کو نہیں، بس بہت ہوگیا۔